22 جون ، 2020
جب انسانی حقوق، حقوقِ نسواں اور آزادیٔ رائے کے نام پر کوئی پالیسی بنانے، کسی قانون سازی یا قانون میں ترمیم کی بات ہو رہی ہو اور ایسی بات کرنے والوں میں این جی اوز اور بین الاقوامی ادارے شامل ہوں تو ہمیں ہوشیار ہو جانا چاہیے اور ایسی تجاویز کو بہت باریک بینی سے دیکھنا چاہیے کہ کہیں پُرکشش نعروں کو استعمال کرکے کچھ ایسا تو نہیں کیا جا رہا ہے جو ہماری دینی تعلیمات اور اقدار کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
چند روز قبل مجھے کسی نے پاکستان کمیشن فار ہیومن رائٹس (پی سی ایچ آر) کی ایک رپورٹ بھیجی جس میں سائبر کرائم یعنی سوشل میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ کے غیر مناسب استعمال کو روکنے سے متعلقہ قانون Prevention of Electronic Crime Act 2016 میں ترامیم کی تجاویز دی گئی ہیں اور اس کے لیے یونیسکو (UNESCO) کے علاوہ پارلیمانی ٹاسک فورس برائے پائیدار ترقیاتی مقاصد (Parliamentary Task Force on Sustainable Development Goals) اور این جی اوز نے مل کر کام کیا۔
اس قانون میں کئی ترامیم تجویز کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ سے بھی بات چیت جاری ہے۔ ان تجاویز میں شامل ایک تجویز یہ بھی ہے کہ موجودہ قانون کی اُس شق کو ختم کر دیا جائے جس کے تحت پی ٹی اے کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اسلام کے وقار کو برقرار رکھنے اور پاکستان کے دفاع، سیکیورٹی اور سلامتی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور عدالتوں کے وقار کے خلاف کسی بھی مواد کو ہٹا سکتی ہے یا اسے بلاک کر سکتی ہے۔
پی سی ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق یہ شق غیر آئینی اور آئین پاکستان میں وضع کردہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ قانون کی اس شق جس کا مقصد اسلام اور پاکستان سے متعلق منفی مواد کو روکنا ہے، کو اس رپورٹ میں سنسر شپ کے طور پر لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ سنسر شپ ایسا موضوع نہیں جس سے سائبر کرائم کی طرح نمٹا جائے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس تجویز سے سینیٹ اور متعلقہ وزارت ابھی تک متفق نہیں۔ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ سول سوسائٹی آرگنازیشنز اور چند این جی اوز اس سلسلے میں حکومت اور اراکین اسمبلی کو اس ترمیم کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
شفافیت، آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کے نام پر کافی عرصہ سے کوشش کی جا رہی ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والوں کو مذہب کے معاملات پر کھل کر بات کرنے کی آزادی ہونی چاہیے اور اس بارے میں ریاست اور حکومت کی طرف سے کوئی روک ٹوک جائز نہیں۔ کوشش یہ ہے کہ جس طرح مغرب میں اسلام اور اسلام کی مقدس ہستیوں کو آزادیٔ رائے کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے اُس کی یہاں بھی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی اور فحش مواد کے پھیلانے کو بھی آزادیٔ رائے کے نام پر تحفظ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جس قانونی شق کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اُس کے مطابق پاکستان کے دفاع اور سلامتی سے جڑے معاملات پر بھی آزادیٔ رائے اُن حدود و قیود کی پابند ہے جن کا مقصد اس ملک کا تحفظ ہے۔
یاد رکھیں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو اگر ریگولیٹ نہ کیا جائے تو وہ انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں اور اگر اِن کو آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کے نام پر یہاں کھلی چھٹی دے دی گئی تو پھر اس ملک کو افراتفری سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسی کوئی آزادی چاہے اس کے لیے کتنے ہی پُرکشش نعرے اور استعارے استعمال کیے جائیں، ہمیں منظور نہیں جو یہاں اسلام مخالف اور پاکستان مخالف خیالات کے اظہار کو تقویت دیں اور غیر اخلاقی اور فحش باتوں کو پھیلانے کا ذریعہ بنیں۔
اس معاملہ پر حکومت، پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کو ہوشیار ہونا پڑے گا ورنہ ایسا نہ ہو کہ آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کے نام پر ہم کسی بڑے شر کو یہاں پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔