’’میرٹ ‘‘ کا قتل

فوٹو فائل—

میرا بچپن حیدر آباد اور جوانی کراچی میں گزری ۔ ان چھ دہائیوں میں بہت کچھ دیکھ لیا اگر نہیں دیکھا تو اس ملک میں ’انصاف ‘اور ’’میرٹ"۔ 

میرے والدین ہجرت کر کے بھارت سے آئے کچھ خواب لئے، اور شاہ لطیف اور حیدر بخش جتوئی کی سندھ دھرتی کے خوبصورت شہر حیدر آباد میں رہائش اختیار کی ۔

والد مرزا عابد عباس نے ٹیچر کی حیثیت سے اسکول میں پڑھانے سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور پھر سٹی کالج کے پرنسپل رہےجہاں سے ہزاروں طالب علم جن میں ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر عشرت حسین جیسے لوگوں نے تعلیم حاصل کی آج بھی ان کواچھے لفظوں سے یاد رکھتے ہیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کا معیار تعلیم بہت بلند تھا ۔نہ صرف اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے تھے بلکہ اچھے استاد بھی۔

زوال آیا تو پورے کمال کے ساتھ آیا صرف تعلیم میں نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں مگر تعلیمی میدان میں اگر آپ پیچھے رہ جائیں تو کسی شعبہ میں آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ایک بڑا ظلم اس قوم کے ساتھ یہ ہوا کہ کبھی بچوں کو ان کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کی سہولت حاصل نہیں رہی۔ زبان کا مسئلہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سر اٹھانا شروع ہو گیا تھا اور پھر ایسی پالیسیاں بنیں جس نے محبت کے بجائے نفرت کے بیج بوئے۔

رہی سہی کسر پہلے ون یونٹ اور پھر ایوب خان کے مارشل لا نے پوری کردی ۔یہی نہیں اس دور میں سندھ کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ یہاں کے اسکولوں میں سندھی زبان میں تعلیم دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ایسا ہی کچھ معاملہ، سول سروس‘ کے ساتھ ہوا۔

1949میں جب پہلی بار پاکستان سول سروس سے24افسران پاس ہوئے تو ان میں12کا تعلق مغربی پاکستان اور 12کامشرقی پاکستان سے تھا۔آنے والے برسوں میں بنگالی افسران میں احساس محرومی جنم لینے لگا خاص طور پر 1958کے مارشل لا کے بعد۔یہ وہ وقت تھا جب کراچی وفاقی دارالحکومت ہوتا تھا۔ 1951میں ’شہری ایکٹ‘ آیا جس کے تحت کوئی بھی شہری کسی ایک ڈسٹرکٹ میں ا یک سال قیام کر لے تو وہاں کے ڈومیسائل کا حقدار بن جاتا تھا۔

اس کا سب سے زیادہ نقصان سندھ کو ہوا کیونکہ دوسرے صوبوں اور شہروں سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا کیونکہ وہ پاکستان کا معاشی حب تھا۔ اچانک کراچی سے وفاقی دارالحکومت ایک نئے شہر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔

ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو کراچی کانوجوان آگے آگے تھا۔ اس سے پہلے وہ صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کا گناہ کرچکا تھا۔ ڈھاکہ نے بھی یہی کیا تھا۔

دونوں کو اپنے اپنے انداز میں سزا بھگتنی پڑی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے کچھ سال پہلے ہی یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ دیہی اور شہری کوٹہ 60فیصد اور 40فیصد ہو گا ۔آنے والے برسوں میں سندھ نے مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ ‘ کے تحت باہر سے آنے والوں کے لئے تین سال مستقل رہائش کو لازم قرار دیا۔

بھٹو صاحب کے دور میں جب تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کو قومیائے جانے کی پالیسی بنی تو اس کی نہ تیاری تھی نہ ہی فوری ضرورت جس کا نقصان یہ ہوا کہ ریاست نے ان اداروں کو قومیا تو لیا مگر ’میرٹ‘ کا نظام رائج نہیں کیا اور نہ ہی وہ خود ان اداروں کو چلا پائی۔ اگر تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں،میرٹ کے کلچر کو فروغ دیتے۔

سوشل سیکورٹی کا نظام رائج ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔سندھی زبان کو دفتری یا سرکاری زبان کا بل ایک درست فیصلہ تھا جس کی مخالفت سے سندھ میں لسانی مسئلہ سنگین ہوا۔ دوسری طرف نوکریوں کے لئے اس طرح کے اشتہارات جس میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر کا ڈومیسائل رکھنے والوں کے سوا نوکری کی درخواستیں دینے کا کہا گیا غیر ضروری تھا ۔

اگر میرٹ ‘کی بنیاد پر ہی60فیصد اور 40فیصد پر نوکریاں دی جاتیں تو معاملہ پیچیدہ نہ ہوتا۔ دیہی اور شہری معاملہ سندھ میں ہمیشہ سے حساس رہا ہے اس لئے ڈومیسائل یا پی آر سی ہمیشہ سے ’جعلی‘ بنتے رہے ہیں۔ پہلے یہ شور شہروں سے بلند ہوتا تھا اور اب خود دیہی سندھ کے نوجوانوں کو بجا طور پر یہ شکایت ہے کہ ’باہر‘ سے آئے ہوئے لوگ جعلی ڈومیسائل بنوا کر سندھ کے کوٹے پر نوکریاں حاصل کر رہے ہیں۔

جب لوگ جعلی ڈومیسائل سے بھرتی ہونگے تو نتائج بہتر کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف ایک با ر خود وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مجھ سے کیا ’’میرے لئے ایک بڑا چیلنج نا اہل افسران ہیں جن کی بھرمار ہے یہ بوجھ اہلیت والے افسران کو اٹھانا پڑتا ہے۔

بڑھتی ہوئی نا اہلی کی وجہ سے ایک کرپٹ نظام اور جعلی کلچر فروغ پا رہا ہے۔ اب تو سیاست میں بھی دو نمبر لوگ آ گئے ہیں جن کا کام صرف مال بنانا ہے۔ 2002میں بی اے کی شرط رکھی گئی تو بھائی لوگ جعلی ڈگریوں پر ایم این اے، ایم پی اے، اور وزیر بن گئے۔ ان کے ڈومیسائل بھی چیک کر لئے جاتے تو بات کہیں سے کہیں نکل جاتی۔

اب سندھ میں ایک اور خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ گریڈ1- 15تک کی ملازمت میں،یہ معاملہ نیب تک پہنچ سکتا ہے، قانون بہت واضح ہے کہ اس گریڈ میں نوکری کا حقدار صرف اور صرف مقامی ڈسٹرکٹ کا فرد ہی ہو سکتا ہے۔ جعلی کام یہ ہو رہا ہے کہ ایک ڈسٹرکٹ میں کام کرنے والے کی تنخواہ دوسرے ڈسٹرکٹ ٹرانسفر کر کے اس کو وہاں بھیج کر نئی نوکریاں دی جا رہی ہیں۔

اس کا سب سے زیادہ بوجھ کراچی پر آتا رہا ہے۔ اس حساس معاملہ پر کسی اور نے نہیں خود اکائونٹنٹ جنرل، سندھ، نے اعتراض کیا تو ایک حکومتی آرڈر کے ذریعہ یہ کام کر دیا گیا ۔کوئی تو وجہ ہے کہ مثالی جمہوریت اور18ویں ترمیم کی بات کرنے والے نہ صوبہ میں حزب اختلاف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ دینے کو تیار ہیںاور نہ ہی اختیارات مقامی حکومتوں کو۔

اہل ثروت یہ ضرورسوچیں گے کہ اس جعلی پن کا اور میرٹ کے قتل کا نقصان سب سے زیادہ کس کو ہوا۔افراد کا نہیں صوبہ کا۔ سندھ ایک ہے اور ایک رہے گا ،تقسیم صرف حقیقی جمہوریت اور جعلی جمہوریت والوں میں ہے۔

جس معاشرہ میں ایک صوبہ کا وزیر اعلیٰ یہ کہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی وہاں ڈومیسائل ڈومیسائل ہوتا ہے اصلی ہو یا جعلی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔