29 جون ، 2020
جب بھی سوچوں، خوشی سے پھول کر کُپّا ہو جاؤں کہ میرا محبوب وزیراعظم ہینڈ سم، ایماندار، پرچی وزیراعظم نہیں، پرچی زدہ تقریر نہیں کرتا، جب بھی بولے، فی البدیہہ بولے، حکمت کے دریا بہا دے، یہ علیحدہ بات کہ صحابہ کرامؓ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مناسب الفاظ کا استعمال نہ ہو پائے۔
قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر نہ ملے، جرمنی، جاپان کی سرحدیں ملا دے، ٹیگور کا قول خلیل جبران کا قول بنا دے، اسد معروف کی نظم علامہ اقبال کی نظم بنا دے، ایک ارب درختوں کو 5ارب درخت بنا دے۔
کبھی اسامہ قتل کو ’بے رحمانہ‘ قتل کہہ دے، کبھی کہہ دے یہ گزرا ہوا ایشو، بات نہیں کرنا چاہتا اور کبھی ایک ہی سانس میں اسامہ مارا گیا، شہید کر دیا گیا فرما دے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں خوش کہ محبوب وزیراعظم پرچیاں دیکھ کر تقریر نہیں کرتا، محبوب وزیراعظم کو چھوڑیں۔
محبوب وزیراعظم کے لیفٹ رائٹ ایسے حکمت بھرے نگینے کہ سر فخر سے بلند ہو جائے، جیسے ابھی کل ہی ایک نگینے نے بتایا کہ ’’جو فون آنکھ کے اشارے سمجھے اسے ’آئی فون‘ کہتے ہیں، جس کے سر پر جن سوار ہو، اسے ’سرجن‘ کہتے ہیں اور جو آم لیٹ کر کھایا جائے اسے آملیٹ کہتے ہیں‘‘۔
اور سنیں، محبوب وزیراعظم کے ان دنوں بہت بڑے چہیتے کے منہ سے خود سنا کہ ہارٹ سرجری کو Bye Passاس لئے کہتے ہیں کہ آپریشن کامیاب ہو گیا تو PassورنہBye، اسی نے یہ بتا کر پاؤں تلے زمین ہی نکال دی کہ بیرونِ ملک سے فون کرتے وقت فون نمبر سے پہلے 92اس لئے لگایا جاتا ہے کہ محبوب وزیراعظم نے 92کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔
محبوب وزیراعظم کے انہی نگینوں کی بصیرتیں دیکھ کر وہ وزیر صحت یاد آ جائے جو وزیر بنتے ہی ایک سرکاری اسپتال کے دورے پر جا پہنچا، دورے کے دوران اس نے دیکھا کہ ایک جگہ 2مریضوں کو آکسیجن لگی ہوئی جبکہ تیسرا مریض آکسیجن کے بنا، وزیر نے ڈاکٹر سے پوچھا، ان دو مریضوں کو تو CNGلگائی ہوئی، لیکن تیسرا مریض سی این جی کے بنا کیوں، ڈاکٹر نے پہلے سر سے پاؤں تک بھلے مانس وزیر کو دیکھا۔
پھر ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ’’سر تیسرا مریض پٹرول پر چل رہا‘‘، پٹرول سے یاد آیا، محبوب وزیراعظم قوم کے وسیع تر مفاد میں پٹرول مہنگا کر چکے، یہ تو دائمی حسد میں مبتلا حاسدین جو محبوب وزیراعظم کے ’پٹرو ل بم‘ گرانے پر تنقید کر رہے، ورنہ پوری قوم خوشی سے نہال بلکہ نونہال، اب دیکھئے پٹرول مہنگا کرکے محبوب وزیراعظم نے مافیا کی پٹرول بلیک کرنے کی سازش ناکام بنا دی، پٹرول سستا تھا، مافیا نے پٹرول ذخیرہ کرکے ملک میں پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا۔
محبوب وزیراعظم نے ایک شام کابینہ، ای سی سی، اوگرا سے ڈسکس کیے بنا پٹرول مہنگا کر دیا، اب مافیا کو مجبوراً پٹرول مارکیٹ میں لاکر بیچنا پڑ رہا، پھر پٹرول مہنگا ہونے سے لوگوں میں پیدل چلنے کی عادت پیدا ہو گی، صحتیں بہتر ہوں گی، اسی طرح محبوب وزیراعظم دو چار بار جب پٹرول مزید مہنگا کرے گا تو جیسے ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر آتا ہے، ویسے ہی پوری قوم سائیکلوں پر آ جائے گی۔
پھر جہاں دل جلے تیل یا پٹرول چھڑک کر خود کشیوں جیسی عیاشی کیا کرتے تھے، اب ان کی یہ عیاشی ختم ہو جائے گی، وہیں بہوئوں کو تیل، پٹرول چھڑک کر جلانے والے سسرالی بھی اب تیل، پٹرول مہنگا ہونے کے بعد جلانے کا پلان بنانے سے پہلے سو بار سوچیں گے، پھر 80فیصد موٹر سائیکل سوار پٹرول خرید پائیں گے نہ وہ ون ویلنگ کر سکیں گے نہ ان کی جانوں کو کوئی خطرہ ہوگا۔
اب بتائیے، محبوب وزیراعظم اپنی قوم سے محبت میں کیا کیا کر رہا، ایسے ہی تو محبوب وزیراعظم نے نہیں کہا تھا کہ ’’وزیراعظم قوم کا باپ ہوتا ہے‘‘، واقعی یہ باپ ہی جو اس طرح اپنی اولاد کے بارے میں سوچے۔
باقی محبوب وزیراعظم کے مکار حاسدین کو دیکھ کر وہ مراثی یاد آ جائے، جس سے قتل ہوا، پکڑا گیا، مقدمہ چلا، جرم ثابت ہوا، پھانسی کی سزا سناتے جج نے پوچھا کوئی آخری خواہش، مراثی بولا ’’جج جی میری آخری خواہش ایہہ کہ مینوں لتاں والے پاسوں پھانسی دتی جائے (جج صاحب میری آخری خواہش یہ کہ مجھے ٹانگوں والی سائیڈ سے پھانسی پر لٹکایا جائے)، یہ چھوڑیں، کورونا ایشو کو ہی لے لیں۔
ان تنقید کرنے والوں کا سوا ستیاناس ہو انہوں نے محبوب وزیراعظم کی ہر بات کا مذاق اڑایا، محبوب وزیراعظم نے کہا ’’کورونا صرف ایک فلو، 97فیصد مریض تندرست ہو جائیں‘‘، اس پر تنقید کی گئی، محبوب وزیراعظم نے کہا ’’کیا کروں لوگ کورونا کو ’فلو‘ سمجھ کر سیریس ہی نہیں لے رہے‘‘، اس پر بھی تنقید کی گئی۔
محبوب وزیراعظم نے کہا کہ کورونا نوجوانوں کو نہیں لگتا، اس پر تنقید کی گئی، جب محبوب وزیراعظم نے کہا ’’کورونا صرف بوڑھوں، بچوں کیلئے نہیں، نوجوانوں سمیت سب کیلئے خطرناک‘‘، اس پر تنقید کی گئی، وہ تو شکر خدا کا، محبوب وزیراعظم کے بنائے کورونا شادی ایس اوپیز سامنے نہیں آئے، ورنہ یہ دائمی حاسدین اس پر بھی تنقید کر رہے ہوتے۔
اب آپ خود ہی دیکھئے، محبوب وزیراعظم نے کیا کمال شادی ایس او پیز بنائے، دو چار ایس او پیز ملاحظہ کریں، جب تک کورونا، تب تک ہر شادی میں دودھ پلائی رسم میں دودھ کے بجائے سنامکی کا قہوہ پلایا جائے گا، شادی میں چھوہاروں، پتاسوں کی جگہ ماسک اور سینیٹائزر دیے جائیں گے، شادی ہال میں گانوں کے بجائے ٹیلی فون والی ’کورونا وبا خطرناک ہے، یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے‘، رنگ ٹون چلائی جائے گی، نکاح کے بعد دُلہا کو دور سے ارطغرل سلام کیے جائیں گے اور دلُہا، دلہن کو حکومت اپنے خرچے پر ہنی مون منانے 14دنوں کیلئے سائیں بزدار کے قرنطینہ کیمپ بھیجے گی۔
لیکن ان حاسدین کا کیا کریں، اب اس پر تنقید کر رہے کہ محبوب وزیراعظم اپنی بجٹ تقریر میں اسامہ کو کہاں سے گھسیٹ لائے، اسامہ کا بجٹ یا حکومتی پرفارمنس تقریر سے بھلا کیا تعلق؟ اوئے حاسدو! تمہیں کیا پتا، محبوب وزیراعظم کی بجٹ تقریر سے اسامہ تعلق کا، ویسے آپس کی بات، واقعی اسامہ کا بجٹ اور 22ماہ کی حکومتی کارکردگی تقریر سے کیا تعلق؟ اوہو! چھوڑیں جی، جب محبوب وزیراعظم نے ذکر کردیا تو کوئی نہ کوئی تعلق تو ہوگا ہی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔