Time 18 جولائی ، 2020
بلاگ

میری محبوبہ

ادھیڑ عمری میں سب رنگ سے محبت اور شکیل عادل زادہ سے اُلفت کا اظہار ممکن تھا، سو کر دیا۔ سب رنگ زندہ ہوتا تو شاید میں اب بھی اسی کے عشق میں مبتلا عاشقِ زار ہوں—فوٹو فائل

ادھیڑ عمر شخص اگر بھرے مجمع میں اپنی داستانِ محبت سنا دے تو تضادستان میں اس کو مسکراہٹ اور دلچسپی سے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ تضادستان کی اسی وسیع القلبی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنی محبوبہ کے حوالے سے سرعام انکشاف کر رہا ہوں۔ میری محبوبہ کوئی عام شکل و صورت والی نہیں، حسینۂ عالم تھی۔ باہر کم کم نکلتی تھی مگر جب نکلتی تھی تو اس کی آب و تاب سے زمانہ مسحور ہو جاتا تھا۔

ہر دفعہ مختلف میک اپ کرتی اور یوں ہر بار ایک نئی ہی شان ہوتی تھی۔ لباس کے انتخاب میں تو پورے ملک میں کوئی بھی اس جیسا نہیں تھا، کبھی وہ کاسنی رنگ پہنتی تو اس کے ساتھ کانچ کی سرخ تین چوڑیاں پہنتی۔ یوں لگتا جیسے کوئی کلی پتوں کے اندر سے مسکرا کر دیکھ رہی ہو۔ سر پر دوپٹہ اوڑھ کر آتی تو سیدھی جنت سے آئی ہوئی حور لگتی۔ ایک بار اس نے ناک میں سرخ کوکا پہنا تو یوں لگا کہ جیسے اس کے ستواں ناک میں گلاب جڑ دیا گیا ہو۔

میر زندہ ہوتے تو اس کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی قرار دیتے، اس کی آنکھوں کو نیم باز قرار دیتے ہوئے اُن سے شراب کی مستی کا مزہ لیتے۔ آنکھوں کی ابرو کمان جیسی تھی اور آنکھیں اتنی گہری کہ جامِ جم کی طرح سارا جہاں اُن میں تیرتا نظر آتا تھا۔ اُن سبز آنکھوں میں جھانکو تو تہہ در تہہ کہانیاں اور داستانیں لکھی ہوئی لگتی تھیں۔

میں لڑکپن میں اُس کے عشق میں مبتلا ہوا، جوں جوں میری عمر بڑھتی رہی میرا عشق اور بھی مضبوط ہوتا گیا۔ پہلے پہلے میں اس کے حسن و رعنائی سے متاثر تھا پھر اس کی شخصیت کی گہرائی مجھ پر اثر کرنے لگی۔ اس کی ذات کا جو بھی صفحہ الٹتا ایک نیا جہانِ معنی آباد نظر آتا۔

حسن جب اتنا خاص ہو تو پھر اس کا مشہور ہونا بھی لازم ہوتا ہے، اسی لئے صرف میں ہی نہیں اس کے عاشق اور بھی بہت ہیں۔ اس کی خاص مہربانی یہ تھی کہ اس کا ہمارے شہر آنا ہوتا تو پورے ناز و انداز سے ہمارے گھر بھی ضرور چکر لگاتی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ جوہر آباد ہمارے گھر میں صرف میں ہی نہیں میرے چچا ’’چاچا اچھی‘‘ (ارشد محمود وڑائچ) بھی اس کے ظاہری عاشق تھے جبکہ میں کم عمر ہونے کی وجہ سے خفیہ عاشق تھا۔ وہ ہمارے گھر آتی تو پہلے چچا اس کو سامنے بٹھا کر باتیں کرتے۔ اس کا چہرہ پڑھتے اور اس کام میں اس قدر منہمک ہوتے کہ اسے دیکھتے دیکھتے ہی سو جایا کرتے۔

اب خفیہ عاشق کا کام شروع ہوتا، وہ اپنی محبوبہ کو بانہوں میں بھر کر اپنے گوشہ تنہائی میں لے جاتا، اس سے پیار محبت کی باتیں کرتا، دل کا ذاتی صفحہ اونچی آواز میں سناتا، اردو ادب سے کشید کئے گئے عطر سے مستفید ہوتا، عشق و محبت کی کہانیاں سامنے رکھتا غرضیکہ ظاہری عاشق چچا جان کے جاگ جانے تک میرا یہ شغل جاری رہتا۔ وہ جونہی سو کر اٹھتے مجھے آواز دیتے اور یہ سجیلی محبوبہ پھر سے ان کے پاس چلی جاتی۔

میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخل ہوا تو اسی محبوبہ کے دو اور عاشق میرے ہم راز بن گئے منور (اب ڈاکٹر منور) اور قاسم محمود (اب جیالوجسٹ) دونوں میرے کلاس فیلو اور ہوسٹل فیلو تھے۔

منور تو اس محبوبہ کے رنگ میں اس قدر رنگا ہوا تھا کہ اس نے اپنے کمرے میں محبوبہ کی بڑی سی تصویر پنسل سے بنا رکھی تھی۔ ہم آتے جاتے ستار بجاتی اپنی محبوبہ کی جھلک دیکھتے، اس سے باتیں کرتے اور اس کے سرگودھا میں آنے کا انتظار کرتے۔

صحافت کی دنیا میں آیا تو یہاں بھی ہر طرف ’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، سب اسی زلف کے اسیر ہوئے‘‘ کے مصداق رئوف کلاسرا ہوں، وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی ہوں یا منفرد مصنف و کالم نگار جاوید چوہدری ہوں، مشفق و مہربان مجیب الرحمٰن شامی ہوں یا پھرمیاں مشتاق جاوید، سب ہی اس کے رنگوں کو سراہنے والے لگے۔

لڑکپن میں سوچتا تھا کہ میری محبوبہ سب رنگ، کے بال سنوارنے اور زلف تراشنے والا شکیل عادل زادہ کوئی پُراسرار آدمی ہوگا، سب سے مختلف، بازیگر کے بابر زمان کی طرح یا پھر امر بیل کے ہیرو کی طرح اسے چاقو بازی کا فن بھی آتا ہوگا اور کھانوں کے ذائقے اور چٹخارے بھی خوب پتا ہوں گے۔ وہ پرستان کی پریوں سے بھی مل چکا ہو گا اور ٹھگوں سے بھی شناسا ہو گا۔

نسوانی حسن کا ذکر آنے پر ان کا قلم وہ جولانیاں دکھاتا کہ لگتا اس جیسا عاشقِ زار آج تک پیدا نہیں ہوا۔ اردو ادب سے انتخاب کرتا تو صاف لگتا کہ اس معاملے میں کوئی سفارش نہیں مانتا۔احمد ندیم قاسمی کا افسانہ شائع کرتا ہے تو پروین شاکر کا ذکر کے کے چٹکی بھی کاٹ لی۔

وقت آگے بڑھتا رہا اور پھر ایک دن جیسے میرے دل کی مراد پوری ہو گئی۔ سب رنگ کے تخلیق کار شکیل عادل زادہ سے کراچی میں ملاقات ہوگئی، ان کی شخصیت میں بالکل سب رنگ والی کشش ہے۔ کئی سال پہلے کا وہ دن اور آج، مجھے ان کی شفقت حاصل ہے۔ جو بھی نئی لغت آئے فوراً لے کر مجھے بھیجتے ہیں۔ کالم ہو یا جیو کا پروگرام، میرے جیسے ٹھیٹھ پنجابی سے اردو زبان و بیان میں کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ شکیل عادل زادہ صبح سویرے فون کرکے اُن غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ان کے ساتھ کئی بار دعوتِ شیراز اُڑانے کا موقع بھی ملا، اُن کے ساتھ کھانے کے ہر لقمے کا مزہ الگ ہی تھا۔

حالیہ دنوں میں عاشقانِ سب رنگ نے شکیل عادل زادہ کی کہانیوں اور انتخاب کو ازسر نو زندہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمہ جہت صحافی و ادیب اقبال خورشید نے اپنے مجلے کے سرورق کو شکیل عادل زادہ کی پورٹریٹ سے مزین کیا ہے۔ عادل زادہ کی جوانی کی تصویریں دیکھ کر واقعی وہ اپنی کہانیوں کے ہیرو لگتے ہیں۔

نامور شاعر جمال احسانی کا شکیل عادل زادہ کے ساتھ لائف ٹائم انٹرویو تو خاصے کمال کی چیز ہے۔ یہ انٹرویو کم اور ایک زندہ ناول زیادہ لگتا ہے۔ انٹرویو میں جس طرح کردار آتے اور جاتے ہیں، ماں کا زیور بیچنے کا واقعہ ہو یا گھر سے بھاگنے کا، یوں لگتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے فلم چل رہی ہے۔ میرا عشق جو سب رنگ سے شروع ہوا تھا اب وہ شکیل عادل زادہ سے محبت و احترام کی شکل میں ڈھل گیا ہے۔

اقبال خورشید کے کارنامے کے ساتھ ساتھ حسن رضا گوندل نے شکیل عادل زادہ کے نگار خانے سے چن کر سب رنگ کہانیاں شائع کی ہیں۔ سمندر پار سے شاہ کار افسانوں کے تراجم گو پہلے سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہو چکے ہیں مگر کتابی شکل میں ان کا ظہور قارئین کے لئے خاصی دلچسپی کا باعث ہے۔

آخر میں کہنا یہ تھا کہ ادھیڑ عمری میں سب رنگ سے محبت اور شکیل عادل زادہ سے اُلفت کا اظہار ممکن تھا، سو کر دیا۔ سب رنگ زندہ ہوتا تو شاید میں اب بھی اسی کے عشق میں مبتلا عاشقِ زار ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔