20 جولائی ، 2020
وزیراعظم عمران خان کو پنجاب میں ایک سیاسی مخمصہ درپیش ہے.جہاں دوسال میں ان کی کمزور فیصلہ سازی سے جن دو جماعتوں کو فائدہ پہنچا ہے ان میں سے ایک ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق ہے اور دوسری بڑی مخالف مسلم لیگ ن. پاکستان اور بالخصوص پنجاب کی سیاست خاندانوں، برادریوں، جٹ، ارائیں، راجپوت اور کشمیری جیس ذاتوں کے گرد گھومتی ہے۔
دوڑ میں اور موجودہ سیاسی منظر نامے میں سب سے زیادہ ہارنے والی بظاہر پاکستان تحریک انصاف ہی ہے. اس کے باوجود وزیراعظم اب بھی عثمان بزدار کو اپنا واحد آپشن یا خفیہ ہتھیار سمجھتے ہیں، بزدار کی موجودگی نے ایک سیاسی خلا پیدا کیا ہے اور صورتحال یہی رہی تو دوسری پارٹیوں بشمول پیپلز پارٹی کیلئے بالخصوص جنوبی پنجاب میں زیادہ جگہ بن سکتی ہے۔
لیکن وزیراعظم کو یقین ہے کہ وہ آئندہ تین سال میں پنجاب کو تبدیل کر سکیں گے، جس پر اب وہ زیادہ توجہ دے رہے ہیں لیکن بزدار کی بڑی غلطیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی خاصا نقصان اٹھا چکی ہے. ان غلطیوں میں ریکارڈ تعداد میں تقرر وتبادلے بھی ہیں جن میں چیف سیکریٹری اور آئی جی سطح کے بھی شامل ہیں۔
وزیراعظم ہفتے کو خاص طور پر لاہور آئے تاکہ بزدار پر اپنے اعتماد کا پھر اظہار کریں، انہوں نے واضح پیغام دیا کہ بزدار کہیں نہیں جارہے. انہوں نے اعلیٰ ترین سطح پر تبدیلی کی تمام قیاس آرائیوں اور میڈیا کمپین پر پانی پھیر دیا، بزدار کے دفاع کی ان کی اپنی منطق ہے، اگرچہ کئی آپشن اور نام ان کے سامنے آئے لیکن انہوں نے فی الحال سب کو رد کردیا ہے، بزدار ان کا پہلا انتخاب کبھی نہیں تھے۔
2018 کے عام انتخابات سے پہلے وہ شاید ہی انہیں جانتے ہوں، وہ الیکشن سے کچھ ہی پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور عمران خان نے اپنے اتحادی گجرات کے چودھریوں کو ان کا ساتھ دینے کا کہا۔
سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہی ان کے والد کو جانتے تھے جنہوں نے پرویز مشرف دور میں ان کے تحت کام کیا تھا، اس لیے انہوں نے کپتان کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
یہ چودھریوں کیلئے بھی مناسب تھا کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ عمران خان نے وزیراعلیٰ پی ٹی آئی ہی کا لانا ہے، پارٹی میں دھڑے بندی کی وجہ سے ایک نووارد عثمان بزدار پر اتفاق کر لیا گیا، دوسال میں بزدار نے چوہدریوں پر بہت انحصار کیا ہے، تقرر و تبادلوں میں حصے اور گجرات، بہاولپور سمت چھ اضلاع میں غیر سرکاری انتظامی کنٹرول سمیت ان کے تمام مطالبے مانے ہیں۔
مسلم لیگ ق خود کو آرام دہ صورتحال میں سمجھتی ہے حالانکہ وزیر اعظم کے ساتھ انہیں مسائلِ رہے ہیں جو چودھریوں کے بجٹ سیشن کے موقع پر وزیراعظم کے ڈنر میں شریک نہ ہونے سے بھی ظاہر ہوئے تھے، وزیراعظم جانتے ہیں کہ وہ ان سے کیوں خوش نہیں، اسی طرح وہ بھی جانتے ہیں کہ مشرف کے زمانے سے ہی عمران خاں انہیں بھی ناپسند کرتے تھے۔
وہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ پر کرپشن کےجتنے الزامات لگاتے تھے، اتنے ہی ان پر بھی، اس لیے اب یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ مونس الہی کو برداشت نہیں کرسکتے، پی ٹی آئی کے بعض اندرونی حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان پہلے سال میں بلدیاتی الیکشن کردیتے جب ان کی پارٹی مقبولیت کی بلندی پر تھی تو وہ ان میں مضبوط جگہ بناسکتی تھی لیکن وہ ن لیگ سے خائف تھے جو 2018کے الیکشن میں پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی۔
انہیں خدشہ تھا کہ وہ بلدیاتی الیکشن بھی جیت جائے گی، عمران خان کو بڑی مایوسی اس وقت ہوئی جب سپریم کورٹ نے ان کے دست راست جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا، اس کے بعد شاہ محمود قریشی خود بخود ان کا انتخاب ہوسکتے تھے لیکن وزیر اعظم نے کسی نہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ زیادہ قربت محسوس نہیں کی، شاہ محمود قریشی جس طرح قومی اسمبلی کی نشست جیتے اور صوبائی ہار گئے اس سے پی ٹی آئی کے اندر بھی کافی سوال کھڑے ہوئے۔
اس کے بعد دوسری آپشنز کے علاوہ علیم خان اور میاں اسلم کے نام بھی زیرغور آئے لیکن نیب کے اچانک ایک کیس سامنے لے آنے سے علیم خاں کا نام تو ترک کرنا پڑا، نرم خو میاں اسلم بھی اندرونی سیاست کی وجہ سے دوڑ سے باہر ہوگئے. گزشتہ سال ایک اور نام زیر غور آیا۔
یہ تھا سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا، ان کے ن لیگ اور شریف برادران سے تعلق کے باوجود عمران خان انہیں دیانت دار سمجھتے تھے، کالج میں وہ کرکٹ اکٹھے کھیلتے رہے، حتیٰ کہ 2014کے مشہور دھرنے کے دوران بھی پیغامات کا تبادلہ کرتے رہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔