22 جولائی ، 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کی بازیابی کی درخواست نمٹانے کا 7 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پولیس کے مطابق صحافی کے اغوا کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر لی گئی ہیں اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اغوا کاروں نے پولیس یونیفارم پہن رکھے تھے جب کہ جرم کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیاں سرکاری معلوم ہوتی تھیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تشویش کی بات ہے کہ مبینہ اغوا کاربغیر کسی خوف دن کی روشنی میں صحافی کو اغواء کرنے کے قابل تھے، یہ بات وفاقی دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی کی صورتحال کی عکاس ہے لہٰذا تفتیش میں کچھ اور ثابت نہ ہو تو اس کیس کو جبری گمشدگی کے طور پر لیا جائے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرموں نے حساس اور ہائی سیکیورٹی والے شہر میں اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا، سی سی ٹی وی کیمروں پر جو بے خوفی ریکارڈ ہوئی اس سے سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں، آئین بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے جس کے تحت چلنے والی ریاست میں ایسے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا اس کیس کا ایک اور اہم پہلو متاثرہ شخص کا پیشہ ہے، صحافیوں کے خلاف جرائم کا معاشرے اور عوام کے بنیادی حقوق پر براہ راست اثر پڑتا ہے اور ریاست کا صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا تاثر بھی آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے کے مطابق ایسا کوئی تاثر چاہے غلط ہو یہ پیغام دیتا ہے کہ جرم کا مقصد آزادی اظہار کو دبانا ہے، ایسے تاثر سے باقی لوگوں کو بھی دھمکانے کا پیغام جاتا ہے اور اس تاثر کو زائل کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ، آزادی اظہار کو دبانے کے اس خوف یا دھمکی کے عوام، معاشرے اور جمہوریت پر اثرات ہوتے ہیں، اس خوف اور دھمکی کے بلاشبہ معاشرے پر تباہ کن نتائج ہیں۔
'کوئی معاشرہ صحافیوں کے خلاف ان جرائم کے ذریعے سچ کی آواز دبا کر ترقی نہیں کر سکتا'
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ملک میں کئی صحافیوں کو سچ بولنے کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے اور پچھلی ایک دہائی میں کئی صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا گیا، آزادی اظہار کو نا صرف آئینی تحفظ حاصل ہے بلکہ اس سے بنیادی حقوق بھی وابستہ ہیں، کوئی معاشرہ صحافیوں کے خلاف ان جرائم کے ذریعے سچ کی آواز دبا کر ترقی نہیں کر سکتا۔
فیصلے کے مطابق نقصان پہنچنے کے خوف سے بالاتر ہو کر آزادی سے سچ بولنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، سچ اگر نفرت کو ہوا نہیں دیتا تو یہ بنیادی حق ہے، آزادی اظہار صرف بولنا نہیں، ایک دوسرے کو سننا اور رائے کا احترام کرنا ہے، آزادی اظہار کو دبا کر معاشرے میں انتہا پسندی، لاقانونیت پھیلتی ہے اور آزادی اظہار کو دبانے سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے جب کہ آزاد میڈیا کا کردار واچ ڈاگ کا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آزاد میڈیا حقائق پر مبنی اطلاعات کے ذریعے ریاست اور اداروں کا احتساب کرتا ہے، لوگوں کو آگاہی دے کر ہی ہم قومی سلامتی کو مستحکم کر سکتے ہیں، تبدیلی، ترقی اور خوشحالی کے لیے آزادی اظہار ناگزیر ہے۔
'حکومت اور اداروں کو یہ ثابت کر کے دکھانا ہو گا کہ وہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خلاف ہیں'
عدالت نے فیصلے میں مزید لکھا کہ مطیع اللہ جان کا مقدمہ وفاقی حکومت اور اداروں کے لیے چیلنج ہے، حکومت اور اداروں کو یہ ثابت کر کے دکھانا ہو گا کہ وہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خلاف ہیں، ریاست پاکستان ذمہ داری لے کہ آزادی اظہار کے خلاف جرائم کو برداشت نہیں کیا جائے گا، بیان بازی کافی نہیں قانون اتنا سخت ہونا چاہیے کہ کوئی آزادی اظہار کے خلاف جرائم نہ کر سکے، یہ مقدمہ وفاقی حکومت اور انتظامیہ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ اپنے ملوث ہونے کے تاثر کو زائل کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو اعتماد ہے کہ ریاست اور اس کے نمائندے ان چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں، عدالت کو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وفاقی حکومت سیاسی ارادہ رکھتی ہے کہ صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو نہ صرف پکڑا جائے گا بلکہ مثال بنایا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی ایسے جرم کے ارتکاب کی جرات نہ کر سکے۔
فیصلے کے مطابق عدالت اس توقع کے ساتھ پٹیشن نمٹا رہی ہے کہ اس کیس میں نہات شفاف انداز میں تفتیش کی جائے گی اور مجرموں سے اس انداز میں نمٹا جائے کہ ملک میں کسی صحافی کو سچ سامنے لانے پر نقصان پہنچنے کا خوف نہ ہو۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز مسلح افراد نے دن دیہاڑے صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا تھا اور 12 گھنٹے بعد اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور فتح جنگ کے علاقے میں چھوڑا تھا۔
مطیع اللہ جان کے بھائی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے درخواست بھی دائر کی تھی جس پر عدالت نے سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ مطیع اللہ جان کو بازیاب نہیں کرایا جائے بصورت دیگر فریقین کل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں اور آج یہ درخواست نمٹادی گئی۔