Time 28 جولائی ، 2020
بلاگ

دنیا ایک بڑی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے ؟

فوٹو: فائل

ایک طرف چین اور امریکا کے مابین سرد جنگ اور تجارتی جنگ تیز ہو رہی ہے ۔ اس سے دنیا میں نہ صرف نئی صف بندی ہو رہی ہے بلکہ مختلف خطوں اور علاقوں میں تصادم کے واضح آثار پیدا ہو گئے ہیں ۔

جبکہ دوسری طرف پاکستان کی معیشت اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ خراب ہو رہی ہے کہ پاکستان بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں خود مختاری کے ساتھ فیصلے کرنے کی پوزیشن کھو رہا ہے اور اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنانے کی بجائے سکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر برقرار رکھنے کی کوششوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کو اس خطے میں ایک مرتبہ پھر تصادم کا مرکز بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ اس صورت حال سے ملک کو نکالنے کی واحد امیدایک قومی حکومت ہے جس میں تمام وفاقی پارٹیوں کے نمائندے ہوں اور اس قومی حکومت کو ملک کے سیاسی، معاشی اور دیگر مسائل پر بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔

نئی ورلڈ سپر پاور چین اور اپنی حیثیت کا بھونڈے طریقے سے دفاع کرنے والی سپر پاور امریکا کے مابین سرد اور تجارتی جنگ اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔

امریکا نے ہیوسٹن میں چین کا قونصل خانہ بند کر دیا ہے ۔ اس کے جواب میں چین نے اپنے شہر شینگ زو ( Cheng Du ) میں امریکی قونصل خانہ بند کر دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ قونصل خانے کا عملہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔

امریکی اور مغربی تھنک ٹینک اور دانشور 1990 ء کے عشرے سے ہی خبردار کر رہے تھے کہ 21 ویں صدی مشرق خصوصاً ایشیا کی صدی ہو گی ۔ چین سمیت ایشیا کے کئی ممالک میں معاشی ابھار آ رہا ہے ، جو انہیں مضبوط معاشی طاقتوں میں تبدیل کر دے گا ۔

مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقت کو سورج کی طرح روکا نہیں جا سکتا ۔ مغرب کا تسلط خطرے میں ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقتوں خصوصا چین کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیںا ور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نام نہاد ’’ امریکی نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ کے دور میں انہی خطوط پر کام کا آغاز ہو گیا تھا ۔

ایران کا ہندوستان سے بندرگاہ کا واپس لینا اور ترکی کا کھل کر آزادانہ پالیسی اختیار کرنے کا اعلان بھی مغرب کیلئے تشویش کا سبب ہے۔لیکن اس مرحلے پر امریکا اور اسکے اتحادیوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ اب کی سرد جنگ پہلے والی سرد جنگ سے مختلف ہے ۔اب صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ مقابلے کیلئے ہر دور میں تین عوامل بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ یعنی معیشت ، ٹیکنالوجی اور سیاسی استحکام ، چین میں یہ تینوں عوامل بہت مضبوط ہیں ۔ سابقہ سوویت یونین کے مقابلے میں چین کی معیشت بہت مضبوط ہے ۔ یہ تو چین کے سب سے بڑے حریف امریکا سے بھی بہت زیادہ مضبوط ہے اگرچہ حجم میں تھوڑی سی کم ہے ۔

امریکی معیشت کی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں کیونکہ جدید نو آبادیاتی اور سامراجی تسلط کی اپنی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں ۔ ٹیکنالوجی میں چین اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ امریکا اور مغرب کی ہائی ٹیکنالوجی خصوصا آئی ٹی کے بڑے اداروں پر لرزہ طاری ہے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی والے یہ ادارے نہ صرف دنیا کی زیادہ تر دولت لوٹ رہے ہیں بلکہ امریکا اور مغرب کے سامراجی تسلط کو برقرار رکھنے کا اسٹرٹیجک اثاثہ ہیں ۔

چین کی ٹیکنالوجی خصوصا 5 ۔جی ٹیکنالوجی اب امریکا اور مغرب کی عظیم لوٹ مار اور دنیا پر تسلط کیلئے خطرہ بن گئی ہے ۔ چین دنیا کو باور کرا چکا ہے کہ اب وہ امریکا اور مغرب کی ٹیکنالوجی پر انحصار ختم کر سکتی ہے ۔ سیاسی استحکام کے حوالے سے چین بہتر پوزیشن میں ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغربی اقوام خصوصاً یورپی اقوام اب پہلے والی سرد جنگ کی طرح امریکا کی کٹر ( Die-Hard ) اتحادی نہیں رہیں ۔

وہ چین اور دیگر مشرقی طاقتوں کیساتھ سخت تصادم اور کشیدگی سے گریز کریں گی اور بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے نئے کردار کا تعین کریں گی ۔ چین افریقا میں اپنا اثرورسوخ گہرا کر چکا ہے جبکہ لاطینی امریکا ، آسٹریلیا اور ایشیا کے بہت سے ممالک امریکا کے کمزور ہوتے اثرورسوخ میں اپنے خود مختارانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ا ٓگئے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کیلئے خود مختارانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہو رہی ہے ۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا مزید مقروض ہو رہا ہے اور اپنی سیاسی اور معاشی خود مختاری مزید گروی رکھ رہا ہے ۔ موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی سے معیشت مزید بحران کا شکار ہو رہی ہے ۔ موجودہ حکومت ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹس کی ڈکٹیشن لینے کے لیے مجبور اور تیار ہے ۔

ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے انسداد دہشت گردی ایکٹ ، اینٹی لانڈرنگ کے قانون ، ضابطہ فوجداری اور سنگل ٹریژری بینک اکاؤنٹ کے قواعد میں تبدیلی کرنے کی منظوری دے چکی ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں انفرادی اور دیگر حقوق کیساتھ ساتھ کاروباری اور دیگر آزادیوں میں مزید کمی ہو گی اور پاکستان ایک جمہوری کی بجائے مزید سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہو گا ۔

موجودہ حکومت نے سی پیک کو بھی ترقی کا ذریعہ اور خود مختارانہ فیصلے کی بنیاد بنانے کی بجائے ’’ سیکورٹی ایشو ‘‘ بنا دیا ہے ۔ تحریک ِ انصاف کی اکثریت نے بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں اپنی حکومت کی پالیسیوں سے بتا دیا ہے کہ پاکستان کیا کریگا لیکن پھر بھی قومی حکومت ہی واحد امید ہے ۔

جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان ایسے حالات میں نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا ، جس سے میں متفق ہوں۔ میں پھر بھی کہتا ہوں کہ قومی حکومت اور موجودہ پارلیمنٹ ہی اس نازک موڑ پر اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

نیا احتساب آرڈی ننس اتفاق رائےسے لائے۔پاکستان کو مزید سکیورٹی اسٹیٹ بنانے کے اقدامات کی مزاحمت کرے اور ایسے قوانین کی منظوری نہ دے ۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اسکینڈلز پر کڑا احتساب کرے اور جو کچھ بھی کرے ، آئین کے مطابق کرے ۔ یہ پارلیمنٹ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔