Time 11 اگست ، 2020
بلاگ

میاں مِٹھو...

میاں مِٹھو چوری کھائےگا۔ را۔را۔ میاں مِٹھو چوری کھائے گا۔ طوطے چوری کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ گھی شکر اور روٹی سے بنی چوری لاڈلوں ہی کے نصیب میں ہوتی ہے۔

اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر میں سے اکثر تعداد ان لاڈلے طوطوں کی ہے جو نہ تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد میں شامل تھے اور نہ انہوں نے کوئی قربانی دی مگر اس کے باوجود کابینہ کا حصہ بن کر بیٹھے ہیں، منتخب پارلیمان کے لوگ فیصلہ سازی میں شریک نہیں ہیں مگر یہ غیرمنتخب اہم ترین ملکی فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں جو کہ سراسر غلط روایت ہے۔

یہ چوری کھانے والے مشیر میاں مِٹھو اس لئے ہیں کہ ان کا ماضی گواہ ہے، ان کا تعلق بیرون ملک سے ہو یا اندرون ملک سے، انہیں سیاسی لیڈر سے محبت اس وقت ہوتی ہے جب اسے حکومت ملتی ہے پھر یہ اسکائی لیب لابنگ کرکے اس کے مشیر بن جاتے ہیں۔ حکومت ختم ہوتی ہے تو یہ ٹکٹ کٹوا کر بیرون ملک جا بسیرا کرتے ہیں۔

ایوب خان کے مشیر خاص اور وزیر خزانہ محمد شعیب ہوا کرتے تھے، وزارت سے فارغ ہوئے تو بیرون ملک جا بسے۔ جنرل یحییٰ خان کے معاشی مشیر ایم ایم احمد تھے، حکومت برخاست ہوئی تو امریکہ جاکر آباد ہو گئے۔ جنرل ضیاالحق کے زمانے میں محبوب الحق کا چرچا ہوا، وہ حکومت سے نکلنے کے بعد اس ملک میں ہی رہے۔ وہ ایسی واحد مثال ہیں۔ بعد ازاں شوکت عزیز وزیراعظم کے عہدے تک جا پہنچے، جنرل مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو وہ بیرون ملک چلے گئے اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئے۔ معین قریشی اور شاہد جاوید برکی کا بھی یہی رویہ رہا۔

اکثر ماہرین صرف حکومتی عہدے سے لطف اندوز ہونے ملک آتے ہیں، اپنے پروفائل میں سابق مشیر یا سابق وزیر حکومت پاکستان لکھوا کر دوبارہ بین الاقوامی فضائوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں کسی نہ کسی بڑے ادارے میں نوکری ڈھونڈھ لیتے ہیں حالانکہ اگر ایک بار وہ ملک کی خدمت کے لئے واپس آتے ہیں تو حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں اس سیاسی پارٹی اور لیڈر کا ساتھ دینا چاہئے۔ اس کے لئے ٹاسک فورس یا تھنک ٹینک بنا کر باقی جماعت کی بھی تربیت کرنی چاہئے مگر یہ میاں مِٹھو صرف چوری کھانے آتے ہیں، دروازہ کھلتا ہے تو طوطا چشمی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ کے لئے اڑ جاتے ہیں۔

ہر مالک اور حکمران کو اپنا طوطا بڑا اچھا لگتا ہے، وہ طوطا چوری تو کھاتا ہے مگر خوشامد سے اپنے مالک کو خوش رکھتا ہے، جو مالک کہتا ہے وہ اُسی بات کو بار بار دہراتا ہے۔ میاں مِٹھو کو اپنے حکمران سے مطلب ہوتا ہے اس لئے اس کی مکمل تابعداری اور خوشامد کرتا ہےجبکہ منتخب نمائندے آزاد پرندے ہوتے ہیں، وہ چوگ چگ لیتے ہیں مگر بولیاں اپنی مرضی کی بولتے ہیں۔ اسی لئےحکمرانوں کو عقاب، بلبلیں اور شاہین پسند نہیں آتے انہیں صرف پالتو طوطے ہی اچھے لگتے ہیں۔

جمہوری دنیا کی مثال لیں تو وہاں بھی مشیر لئے جاتے ہیں مگر اُس کا طریق کار قطعی مختلف ہے۔ امریکہ میں صدارتی نظام ہے، وہاں صدر کی کابینہ ٹیکنو کریٹ اور غیرمنتخب اراکین پر مشتمل ہوتی ہے مگر پارلیمان ان کے کام اور پالیسیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ کانگریس اور سینیٹ ہر وزارت کے کام کا جائزہ لیتی ہے اور یوں بالواسطہ طور پر عوام ہی حکومت چلاتے ہیں۔ دوسری طرف برطانیہ میں پارلیمانی نظام ہے وہاں صرف منتخب نمائندے ہی کابینہ کا حصہ ہوتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں اپنے اراکین پارلیمان کی پہلے سے تربیت کرتی ہیں، انہیں شیڈو وزیر بنا کر تیاری کروائی جاتی ہے، اسی طرح انہیں جونیئر وزیر، پارلیمانی سیکرٹری کے بعد مکمل وزیر بنایا جاتا ہے پھر اس وزیر کو پارٹی کا تھنک ٹینک مشورے دیتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں ان دونوں نظاموں سے ہٹ کر غیرمنتخب مشیروں کو پارلیمانی نظام میں کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے جو اصولی اور جمہوری طور پر غلط ہے۔

امریکہ میں پارلیمان فیصلوں کی نگرانی کرتی ہے۔ برطانیہ میں پارلیمان خود فیصلے کرتی ہے پاکستان میں فیصلے غیرمنتخب مشیر کرتے ہیں اور پارلیمان کو ان کی نگرانی کا بھی براہِ راست اختیار نہیں ہے۔ گویا غیرمنتخب افراد بغیر عوامی نگرانی کے کام کر رہے ہیں۔

پہلے تو میاں مِٹھو بڑے کم کم ہوتے تھے اور ہوتے بھی تیز طرار اور گنی تھے،وہ اپنے ہنر سے بڑے عہدوں پر فائز ہو سکتے تھے مگر اس بار چونکہ سب ایک صفحے پر ہیں اس لئے حکومت کو تقرریوں کے حوالے سے فری ہینڈ حاصل رہا ہے۔ حکومت پنجاب نے سینکڑوں سیاسی نوجوانوں کی منافع اور غیرمنافع بخش عہدوں پر تقرریوں کے نوٹیفیکیشن جاری کئے ہیں۔

بہت سے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں تقرریاں ہو چکی ہیں، ہیں تو یہ بھی میاں مِٹھو لیکن ان میں سے بیشتر سیاسی جدوجہد میں شریک رہے ہیں اور ان میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی موجود ہے اس لئے یہ والے کاٹھے میاں مِٹھو کسی حد تک قابلِ قبول ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ملک گیر سطح پر فیصلہ سازی نہیں کر رہے یہ تو چھوٹا موٹا ادارہ ہی چلا رہے ہیں جس کا انہیں حق بھی ملنا چاہئے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان میں مشیروں، معاونین خصوصی اور معاونین برائے وزیراعظم کے حوالے سے واضح قانون سازی کریں اور اس حوالے سے جو ابہام موجود ہے وہ ختم کریں۔ میری ذاتی رائے میں بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو مشیر اور معاون بننے کا آئینی اور قانونی حق ملنا چاہئے مگر انہیں کابینہ کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، انہیں منتخب وزیروں کے ماتحت ہونا چاہئے اور انہیں وزراء اور کابینہ کو تکنیکی مشاورت فراہم کرنی چاہئے مگر خود فیصلہ سازی نہیں کرنی چاہئے۔

طوطا خوش نما پرندہ ہے، پالتو ہو جائے تو میاں مِٹھو بن جاتا ہے، چوری کھاتا ہے اور خوشامد کرتا ہے مگر میاں مِٹھو وفادار نہیں ہے، وفاداری پالتو کتے کا ہی وصف ہے، جس میں کوئی اور جانور یا پرندہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مور بھی بڑا خوبصورت پرندہ ہے شاید سب سے خوبصورت مگر وہ اپنے مالک تک کو نہیں پہچانتا۔

کبوتر بھی مالک اور گھر کا عادی تو ہو جاتا ہے مگر کتے اور گھوڑے جیسا لاڈ، پیار اور وفاداری نہیں دکھا سکتا۔ حکومتوں میں طوطوں کے علاوہ کئی مور بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی ’’میں‘‘ پر بہت ناز ہوتا ہے، وہ چلتے ہیں تو مور کی چال سے اور شان و شوکت سے۔

بولتے ہیں تو یوں لگتا ہے بلبلیں گیت گا رہی ہیں مگر ان کی منفرد چال ڈھال انہیں ٹیم کا حصہ بننے سے روکے رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کابینہ کے ایک مور کے بیان نے ہل چل مچا رکھی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ دوست ملک اس بیان پر کیا ردعمل دیتا ہے۔

وزیراعظم کو اپنی کابینہ اور سیاسی ٹیم کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ اندازہ کرتے رہنا چاہئے کہ کون صرف میاں مِٹھو کی طرح صرف چوری کھا رہا ہے اور کون ہے جو خون جگر دے کر رات گئے دیر تک اپنا کام نمٹاتا ہے، کون ہے جس نے عہدے کو صرف سر پر سجایا ہوا ہے مگر اس کے شایانِ شان کردار ادا نہیں کر رہا۔ یہ طے ہے کہ میاں مِٹھو مشکل میں کام نہیں آتے۔ کاش یہ بات سمجھ لی جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔