15 اگست ، 2020
سال2018 کے عام انتخابات سے تھوڑا قبل عمران خان پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین سے ملاقات کے بڑے خواہشمند تھے۔ ابتدا میں پشتین اس ملاقات سے گریزاں تھے مگر پھر کراچی کے ایک مشترکہ دوست نے منظورکو ملاقات پر آمادہ کرلیا۔
منظورپشتین اپنے رفقا کے ساتھ ایک خفیہ راستے سے بنی گالہ پہنچے تو تحریک انصاف کے سربراہ نے ان کادروازے پر آ کر استقبال کیا۔ ملاقات میں منظور پشتین نے عمران خان کو قبائلی علاقہ جات کے عوامی مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ انتخابی نتائج سے کتنے پرامید ہیں؟
عمران خان نے بتایا کہ وہ صرف پرامید نہیں بلکہ اس بار یقینی طورپر وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ نوجوان پشتین نے خیال ظاہر کیا کہ عمران شاید اقتدارتو حاصل کرلیں مگر جو قوتیں انہیں اقتدارمیں لا رہی ہیں وہ کبھی انہیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیں گی۔
اس پر عمران خان منظورپشتین سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ پاکستان میں اقتدارحاصل کرنے کا فارمولہ دو اصولوں پرمشتمل ہے۔
’’پہلا یہ کہ اصل طاقت کے ساتھ ملو اوردوسرا یہ کہ پنجاب کو اپنے ساتھ ملائو، میں نے اس فارمولے پر عمل کیا ہے‘‘۔ عمران خان قبائلی علاقہ جات میں ہونے والے تمام مظالم کے بارے میں منظور پشتین سے مکمل طورپر متفق تھے اور کہہ رہے تھے کہ ، ’’میں جونہی اقتدار میں آئوں گا اگلے روز آپ سے ملاقات کرکے پشتونوں کے مسائل حل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرونگا‘‘۔
عمران خان کا وزیراعظم بننے کا دعویٰ سچ ثابت ہوا تاہم منظورپشتین سے ملاقات کرکے قبائلی علاقہ جات میں عوامی مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کا وعدہ دوسرے بہت سے وعدوں کی طرح آج تک پورا نہیں ہوا۔
دو اور معاملات مختصر طور پر ملاحظہ فرمائیں۔ عمران خان کو ایک طاقتورشخصیت نے براہ راست ملاقات کرکے گزارش کی کہ جناب پنجاب میں عثمان بزدار کو تبدیل کردیں۔
عمران خان نے مذکورہ شخصیت کو بتایا کہ وہ بہترجانتے ہیں کہ کس کو کہاں لگانا اور کس کو کہاں سے ہٹانا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق اس واقعے کے بعد پیغام رسانی کی حد تک وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی باتیں کی گئیں تاہم کوئی براہ راست ہدایت موصول نہیں ہوئی۔
اسی لیے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کے لیے اب نیب میں ایک درخواست دلوا کر ایک سرکاری افسر کو وعدہ معاف گواہ بھی بنا لیا گیا ہے اور ٹی وی چینلز پربیٹھے کئی لوگ وہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا انہیں اشارہ کیا گیا ہے۔
بظاہر اوپر بیان کیے گئے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ واقعات وزیراعظم عمران خان کے طرزحکمرانی کی عکاسی کررہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ عمران خان کے اندر بھی طاقت کو للکارنے والا چھوٹا سا نوازشریف پیدا ہوچکا ہے جو کبھی کھل کر طاقت کوللکارتا ہے تو کبھی مصلحت کے باعث خاموش ہوجاتاہے۔
مخدوش معاشی صورتحال کے باعث عمران خان اس وقت ملک میں غیر مقبول ہوچکے ہیں ان کی یہی غیرمقبولیت ان کے اقتدار سے نکلنے کی سرگوشیوں کو جنم دے رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مارچ2021 میں سینیٹ انتخابات کے بعد ایک سنجیدہ کوشش ضرور کی جائے گی اس پر شاید سوچ بچار جاری ہے۔
عمران خان کو اقتدارسے نکالنے کی خواہشمند اب صرف اپوزیشن ہی نہیں ہے بلکہ کئی طاقتور بھی ہیں، واضح راستہ مگر سجھائی نہیں دے رہا۔
عمران کی اقتدارسے بے دخلی دو بنیادی نکات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اول یہ کہ متبادل کون ہوگا ؟ دوئم یہ کہ اقتدارسے بے دخلی پرعمران خان کا ردعمل کیا ہوگا؟
عمران کے متبادل کے طورپر تین راستے واضح ہیں۔ اول یہ کہ ان ہائوس تبدیلی کے ذریعے پی ٹی آئی کے اندرسے نیا وزیراعظم لایا جائے۔ دوئم یہ کہ پارلیمنٹ کے اندرسے اپوزیشن کے کسی قابل قبول چہرے کو وزیراعظم بنا دیا جائے اور سوئم یہ کہ ملک میں نئے انتخابات کروا دئیے جائیں۔
پارٹی کے اندرسے تبدیلی کا پہلا آپشن شاید عمران خان کو قبول نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ کے اندرسے اپوزیشن کو موقع دینے کا آپشن بلاول بھٹوکی سربراہی میں پیپلز پارٹی کو قبول ہے مگر پنجاب سے مسلم لیگ ن کے تعاون کے بغیریہ ممکن نہیں۔
سب سے آخری یعنی عام انتخابات کا آپشن مسلم لیگ ن کو قبول ہے مگریہ شاید اس لیے قابل عمل نہیں کہ ملکی خزانہ خالی ہے اورملک کی کمزورمعیشت عام انتخابات کے اخراجات جھیلنے کے قابل نہیں۔
دوسرا اہم سوال عمران خان کے ردعمل سے متعلق ہے۔ یہ سوال عمران کے متبادل سے زیادہ اہم ہے۔ اس پردو خیال ہیں اول یہ کہ عمران خان خاموشی سے گھرچلے جائیں گے اوردوسرا یہ کہ عمران خان بھرپورردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ میں دوسرے خیال کے حامیوں میں شامل ہوں۔
پچھلے دنوں ایک سرکاری افسر نے ایک سینیٹرسے غیر رسمی ملاقات میں بتایا کہ جناب ہم عمران خان سے تنگ ہیں مگر ہمیں ڈر ہے کہ یہ شخص کہیں کوئی سخت ردعمل ہی نہ دے دے اسلئے ہم دیکھو اورانتظارکرو کی پالیسی پرگامزن ہیں۔ اس واقعے کی بہت سی تفصیلات ہیں مگر صرف اوپر درج مختصربات پر انحصارکررہا ہوں تاکہ بتا سکوں کہ طاقتورلوگ بھی عمران کو نکالنے کے بارے میں پریشان ہیں کیونکہ شاید موجودہ حکومت ان کے گلے میں پھنسی ایک ایسی ہڈی بن چکی ہے جو نگلی جارہی ہے نہ اگلی۔
مجھے نہیں علم کہ عمران خان کو اقتدارسے چلتا کرنے کے لیے کیا جانے والا وارکیا ہوگا ؟کامیاب ہوگا یا وار خالی جائے گا لیکن میں یہ بات ضرورجانتا ہوں کہ عمران خان کسی صورت بھی اقتدارسے بے دخلی کے بعد چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
عمران خان جونہی ردعمل دیں گے قبائلی علاقہ جات کے منظورپشتین سمیت ملک بھر میں مزاحمت کی تمام آوازیں انکے ساتھ ہولیں گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔