17 جون ، 2020
جب سے کورونا وبا پھیلی ہے، وزیراعظم عمران خان پہلی بار سندھ کے دوروزہ دورے پر ہیں، اس دوران ان کی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات بھی متوقع ہےکیونکہ کورونا سے نمٹنے میں دونوں کی رائے میں کافی اختلافات ہیں۔
ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے وزیراعظم کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہاہے ،’ "اگر وزیراعظم نے نے وزیراعلیٰ کو بات چیت کیلئے بلایا تو مسئلےپر سندھ حکومت اپنا موقف پیش کرے گی اور اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرےگی۔‘‘
یہ بھی رپورٹس ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ وزیراعظم کو نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل اور سندھ کے اعتراض سے متعلق ان کے خط کے بارے میں یاد دلائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ انھیں وفاق سے تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔ اس کے علاوہ سندھ نے اس پر بھی تحفظات کاا ظہار کیاہے کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں کراچی کے تین ہسپتالوں کیلئے فنڈز مختص کیے ہیں ان میں جناح ہسپتال اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیوویسکیولرڈسیز شامل ہیں۔ لیکن گفتگو کا مرکز کورونا ہوگا۔
مکمل لاک ڈائون یا سمارٹ لاک ڈائون پر وفاق اور سندھ میں اختلافات ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس یا کووڈ-19 پاکستان میں اختلافات یا کشمکش کی وجہ سےپھیلا نہیں ہے، بلکہ کچھ مشکل پالیسی فیصلے لینے میں کمزوریوں کے باعث ہوا جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اگر ان فیصلوں میں حکومت اور ریاست اپنی رٹ قائم کرلیتی توجہاں تک وائرس کی مقامی منتقلی کا تعلق ہے تو آج حالات کافی مختلف ہوسکتے تھے۔
آپ اسے جو مرضی نام دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وائرس کےپھیلائو کوروکنےکیلئے کچھ شہروں میں سختی کرنے کا فصیلے سے واضح طورپر ظاہر ہوتا ہے کچھ برے فیصلوں کےباعث پالیسی سازوں میں پریشانی پھیلی۔ تفتان بارڈ، تبلیغی اجتماع، یومِ علی کے جلوس جیسے فیصلے اور سب سے تباہ کن بازاروں،شاپنگ پلازوں کو عید سے15دن قبل کھولنے کا فیصلہ تھا اور وہ بھی صرف محدود وقت کیلئے کیونکہ کسی نے بھی ایس اوپیز کا خیال نہیں رکھا نہ انتظامیہ ان کا نفاذ کراسکی۔
وفاقی وزیر اور وزیراعظم کے ایک قابلِ اعتماد ساتھی نے اتوار کو وبا کی ایک خوفناک صورتحال بیان کی کہ اگر لوگوں نے ایس اوپیز کی خلاف ورزی جاری رکھی تو جولائی کے اختتام تک یہ تعداد 80 لاکھ تک ہوسکتی ہے جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے کی گئی پیش گوئی سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کا بیان ایسے وقت میں آٰیا جب پنجاب حکومت اور اس کی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے ڈبلیو ایچ او کی حمایت کی اوردو ہفتوں کیلئےمکمل لاک ڈائون کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی رپورٹس ہیں کہ ان کی وزارت نے سخت لاک ڈائون کی تجویز دی لیکن وزیراعظم نےلاہور دورے کےدوران اس فیصلے کو ’ویٹو‘کردیا۔ پنجاب حکومت نے مارچ میں مکمل لاک ڈائون کیا اور سندھ کے فیصلےکوسراہاکیونکہ اب انھوں نے لاہور کے اہم علاقوں کو بند کردیاہے لیکن اسےسمارٹ لاک ڈائون کانام دیاہے۔
جبکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی ٹیم کے پاس وزیراعظم کی ہدایات پر عمل کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا پنجاب میں متعلقہ اہلکار پریشان ہیں۔ سندھ میں صورتحال اچھی نہیں ہےاور کراچی میں ایک بدترین بحران سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی کمی ہے اور ایک بیڈ کیلئے بھی ہسپتال بڑی رقم کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کورونا کاعلاج، آی سی او سے وینٹیلیٹر تک کا علاج عام آدمی کی پہنچ سے دور ہورہاہے۔ پنجاب حکومت کے حوالےسے ایک کیے گئے ایک سروے کی رپورٹ نے خبردارکیاہے صرف لاہور میں ہی کورونا کے کیسز 6لاکھ سے زائد ہیں۔
رپورٹ کو جیونیوز کے بیوروچیف لاہورنےبریک کیا اور اس کی کوئی تردید بھی نہیں ہوئی پنجاب حکومت نے وضاحت ضرور دی۔ وزیراعظم عمران خان جو خطرات مول لینے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں غالباً انھیں اپنی زندگی کے مشکل ترین چیلنجز میں سے ایک کا سامنا ہے۔ 22سال کے کرکٹ کے تجربے اور 24سال کی سیاست کے ساتھ پہلی بار انھیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیوں کوعالمی وباءکےباعث خطرات لاحق ہیں۔
لہذا غلطی کیاہوئی؟ وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت کی جانب سےلاک ڈائون،سمارٹ لاک ڈائون یا منتخب لاک ڈائون کے علاوہ اپنائی گئی پالیسیوں پر نظرثانی کرنےکی ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ لاک ڈائون اور سندھ اور وفاق کےدرمیان پالیسی پر اختلافات پربحث کرنےکا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن بعض اوقات یہ تنازع کچھ نتائج دے سکتاہے کہ کیا غلط ہوا تھا اور کس کو ذمہ دار ہوناچاہیئے۔
پاکستان نے وائرس کو مکمل کنٹرول کرنے کا موقع کھو دیا جب پہلا 26فروری کو امریکا سے آنے والے پہلے شخص کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اگر اس وقت ہی ایمرجنسی ہیلتھ الرٹ کرکے ایک ہفتے یا دس دن تک کیلئے لاک ڈائون کرکےسخت اقدامات اٹھائےجاتےتو حالات قابومیں ہوتے۔ ایک بعد ایک غلط فیصلے کے باعث وائرس کی مقامی منتقلی تیز ہوگئی۔
حکومت نے چینی شہر ووہان میں پھنسےپاکستانیوں کو وہیں رکھنے کا ایک درست فیصلہ کیا اور اپنی سمت کھودی۔ وزیراعظم لوگوں کی بھوک اور بڑھتی ہوئی بےروزگاری کے بارے میں پریشانی ٹھیک ہے بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ہے مذکورہ بالا فیصلوں کا تعلق زیادہ پالیسی سے ہے نہ کہ لاک ڈائون یا سمارٹ لاک ڈائون کے تنازعے سے ہے۔
وہ اس وقت بھی غلط تھے جب انھوں نے کہاکہ صرف ایلیٹ کلاس ہی لاک ڈائون چاہتی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ یہ ایلیٹ کلاس یعنی بزنس مین، بلڈرز کی جانب سےہی دبائو تھا جس کے باعث تعمیراتی کاروبار اور شاپنگ پلازے کھولے گئے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ زیادہ تر لوگوں کاتعلق لوئرمڈل کلاس یا مڈل کلاس سےہے جبکہ دہاڑی دار اور بھوک سے لڑنے والوں کو پتہ بھی نہیں ہے کہ انھیں کورونا وائرس ہوگیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ترممالک سے کہیں کم ہے اور مریض صحت مند ہورہے ہیں، یہ بھی پاکستان کیلئے امید کی ایک کرن ہے۔ لیکن جو وزیر نے پیش گوئی کی ہے اگر وہ سچ ہوگئی تو اس بات کا امکان ہے کہ ہمارا ہیلتھ سسٹم بیٹھ جائےکیونکہ نہ ہی ہمارے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ہم اتنے زیادہ مریضوں کو دیکھ سکیں نہ ہی ہم اتنے کم وقت میں مزید ہیلتھ کیئر سنٹرپر کام کررہےہیں۔
ایک بات جو وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو سمجھنی چاہیئےوہ یہ کہ وائرس کا پھیلائو ملک میں صرف معاشی سرگرمیوں کو ہی روک سکتاہے اور ہماری ایکسپورٹ پر اس کا منفی اثر پڑےگا اگرہم نے ڈبلیو ایچ او کی وارننگ کو نظرانداز کردیا لیکن ہلاکتوں میں اضافےاور وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ موجودہ حکومت کیلئے تباہ کن ہوگا۔ یہ وزیراعظم عمران خان کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔