بلاگ
Time 19 اگست ، 2020

سیاست کا گجر نالہ

فوٹو: فائل

کراچی میں بارش ہو اور ’’گجرنالے‘‘ کا ذکر میڈیا پر نہ آئے یہ ممکن نہیں۔ ہر سال اس کی نام نہاد صفائی افسران کی کمائی کا دھندہ ہوتی تھی۔ اس بار لگتا ہے صفائی کچھ لمبی ہونے جارہی ہے۔ مگر کیا یہ گند دوبارہ نہیں آسکتا کہنا مشکل ہے۔ 

بہرحال اس بار وزیر اعظم نے مداخلت کرکے یہ کام NDMA اور FWO کو دیا ہے۔ دیکھیں وہ کیا کارنامہ کرتے ہیں۔ ہماری سیاست بھی اس نالہ کی مانند ہوتی جارہی ہے جہاں ہر طرح کا گند جمع ہوچکا ہے۔ یہ کام ویسے تو خود سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہئے تھا تاکہ سیاست صاف ہوتی مگر اب نیب نے انجینئرز رکھ کر ’’انجینئرنگ‘‘ سے یہ صفائی مہم شروع کی ہوئی ہے۔

ہماری سیاست کی بھی عجب کہانی ہے، یہاں لیڈر جماعت سے زیادہ بڑا ہوتا ہے، وہ پارٹی کو جواب دہ نہیں ہوتا ورنہ تو سیاست میں گند جمع ہی نہ ہوتا۔سیاست میں ’’لوٹے‘‘، ’’گندے انڈے‘‘، ’’وفاداریاں راتوں رات تبدیل کرنیوالے ‘‘ یہ سب اس گند کی وجہ سے ہے جس کی پارٹیوں نے حوصلہ افزائی کی۔ ایک وقت تھا جب لوگ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں جیل جاتے تھے۔ قابل اعتراض لٹریچر، رسائل چھاپنے اور تقسیم پر سزا ہوتی تھی، پریس سیل ہوجاتا تھا۔ اب اربوں اور کھربوں کی کرپشن، ذخیرہ اندوزی، چینی اور گندم زیادہ بیچنے پر مقدمہ درج ہوتا ہے۔

پارٹیوں میں احتساب کا کلچر پروان ہی نہیں چڑھنے دیا گی، باہر والے بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ صفائی کے نام پر آتے ہیں اور پھر کچھ گند کو نئے برانڈ کے ساتھ لے آتے ہیں۔بدقسمتی سے یہ سیاسی گند لانے والے وہی لوگ ہیں جن کو بعد میں صفائی کا کام مل جاتا ہے۔ آتے ہیں تو سیاست ہی کی صفائی کرجاتے ہیں۔

ہوتی تھی کبھی سیاست اور سیاسی کلچر، ایسے ہی تو نہیں ایک زمانے میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، مولانا مودودی، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، خان عبدالغفار خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، ذوالفقار علی بھٹو، مولانا بھاشانی، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، محترمہ فاطمہ جناح جیسے لوگ سیاست میں تھے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان، پروفیسر غفور، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو۔ 

اختلاف اور شدید اختلافات کے باوجود احترام کا رشتہ برقرار رہتا تھا۔سیاست میں ’’لوٹوں‘‘ کا کلچر آمرانہ خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور میں آیا اور پروان چڑھا۔ جعلی ریفرنڈم کے ذریعہ مذہب کا نام استعمال کرکے اقتدار کو طول دیاگیا۔ یہ سیاست میں ’’گجر نالے‘‘ کی ابتدا تھی۔ پھر تو کچرہ جمع ہوتا چلا گیا۔وقت کے ساتھ گندے انڈوں میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر انڈوں کے بچے بھی گندگی ہی پھیلاتے گئے۔ جب سوال ہوتا کہ بھائی ان پر تو داغ لگا ہوا ہے تو جواب آتا ’’بھائی، داغ تو اچھے ہوتے ہیں!‘‘

1985ء کی اسمبلی ایسے ہی معرض وجود میں آئی، اسلامی جمہوری اتحاد ایسے ہی بنا، اقتدار بھی ایسے ہی ملا۔ اب کیا محمد خان جونیجو اور کیا بے نظیر بھٹو۔ صفائی کرنے والے جب چاہتے ہیں سیاست دانوں کو گندا کہہ کر صفائی کردیتے ہیں اور پھر انہی میں سے کچھ لوگوں کو واپس لاکر وہی جملہ دہراتے ہیں کہ، ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔ چلیں کچھ مثالیں دیتا چلوں تاکہ آپ کو سمجھ آجائے کہ سیاست کا گجرنالہ صاف کیوں نہیں ہوتا۔

1990ء میں پی پی پی کی حکومت برطرف کی گئی تو نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی اور سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جام صادق علی بنے جب بے نظیر بھٹو جام کو کابینہ میں شامل کررہی تھیں تو ایک ادارے نے رپورٹ دی کہ اس کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ہے۔ بعد میں جام نے پی پی پی کے لوگوں کو ’’را‘‘ سے تعلق کے الزام میں بند کردیا۔ اس وقت جناب امتیاز شیخ ان کے دست راست تھے۔ ماشاء اللہ آج وہ آصف زرداری صاحب کے ساتھ ہیں۔ جتوئی صاحب شریف آدمی تھے۔ 

شاید پی پی پی نہ چھوڑتے اگر بیٹے کے خلاف MRD کی تحریک میں قتل کا مقدمہ نہ بنتا اور ان پر دبائو نہ ڈالا جاتا۔جام کی حکومت 1990ء میں الیکشن کے بعد بنی تو صفائی کرنے والوں نے پوری کی پوری ایم کیو ایم ان کے حوالے کردی۔ 

کچھ عرصے بعد ’’نالہ‘‘ بھر گیا تو خود ہی صفائی کا عمل شروع کروا دیا۔ جام کا انتقال ہوا تو مظفر حسین شاہ کی حکومت بنانا مسئلہ ہوگیا کیونکہ ایم کیو ایم الگ ہوگئی تھی۔ لہٰذا ’’تھپکی‘‘ کا کام شروع ہوگیا اور بہت سے انڈے ان کے سپرد کردئیے گئے۔ اسے کہتے ہیں ’’کمال سیاست‘‘ خود ہی گندگی کرو اور خود ہی صفائی۔

گندے انڈے ایک پلڑے سے دوسرے پلڑے میں کیسے ڈالے جاتے ہیں یہ ہم 1985ء سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک بار تو پوری پنجاب اسمبلی کی اکثریت راتوں رات بدل گئی۔ سندھ میں یہ تجربات اکثر ہوتے ہیں۔ چند سیٹوں کی جماعتوں کی جھولی میں دیکھتے ہی دیکھتے اکثریت ڈال دی جاتی ہے۔ جام صادق، علی محمد مہر، مظفر حسین شاہ وغیرہ کی حکومتیں ایسے ہی نہیں بنیں۔ ماشاءاللہ جن کی اکثریت تھی یعنی پی پی پی انہوں نے بھی کبھی اپنے اندر کی گندگی صاف نہیں کی بلکہ اپنے خلاف زہر پھیلانےوالوں کو وزارتیں دیں۔

ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی یہ عزم لئے میدان میں آئے تھے کہ وہ سارا گند صاف کریں گے مگر حکومت ملی تو آدھا گند ان کے پلڑے میں تھا۔ اب ذرا سوچیں جو جماعتیں اور رہنما اس گندگی کی پیداوار ہوں وہ اتحادی بنیں گے تو صفائی کرنے کے لئے نہیں بلکہ ’’تعفن پھیلانے‘‘ کے لئے۔ 

اب تودم گھٹنے لگا ہے۔فیض احمد فیض تو راولپنڈی سازش کیس کے بعد یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے کہ ؎’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے‘‘ اور آج تک یہی ہورہا ہے۔سیاست کو اگر واقعی گندگی سے صاف کرنا ہے تو جماعتوں کو رہنمائوں سے بڑا بننا پڑے گا۔ حساب کتاب کرنا پڑے گا۔ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کے نعرہ سے لے کر آج تک صرف صفائی کا نام استعمال ہوا ہے۔ صفائی انجینئرز کا کام نہیں ’’خاکروب‘‘ کا ہوتا ہے۔ انجینئر تو انجینئرنگ کرسکتا ہے۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ اگر سیاست دانوں نے یہ کام نہ کیا تو یہ کام بھی کہیں NDMA کو نہ مل جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔