19 اگست ، 2020
شوگر مافیا نے وزیراعظم عمران خان اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو چند ماہ قبل چینی کی قیمتوں میں اضافے کی دھمکی دی تھی، اور اب ویسا ہی ہو رہا ہے۔
دی نیوز نے رواں سال 5؍ اپریل کو خبر دی تھی کہ شوگر مافیا نے وزیراعظم عمران خان اور ساتھ ہی ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین انکوائری کمیشن واجد ضیاء کو خبردار کیا ہے کہ شوگر اسکینڈل کی تحقیقات فوراً روک دی جائیں بصورت دیگر ملک میں چینی کی سخت قلت پیدا کر دی جائے گی اور قیمتیں 110؍ روپے فی کلوگرام تک جا سکتی ہیں۔
شوگر کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کر دی گئی تھی اور حکومت نے بھی کمیشن کی سفارشات پر عمل کیلئے ایکشن پلان مرتب کیا تھا، لیکن اس کے باوجود قیمتیں 100؍ روپے فی کلو تک جا پہنچی ہیں اور کچھ علاقوں میں شوگر مافیا کی دھمکی کے مطابق 110؍ روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
وزیراعظم کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر شوگر کمیشن نے تحقیقات جاری رکھیں تو ملک میں چینی کا بدترین بحران آ جائے گا۔
یہ خبر دی گئی تھی کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا، جو کمیشن کے سربراہ تھے، سے کہا گیا تھا کہ تحقیقات روک دیں بصورت دیگر چینی کی قیمت 110 روپے ہو جائے گی۔ ڈی جی ایف آئی اے نے وزیراعظم آفس کو اس دھمکی سے آگاہ کیا جو انہیں ملی تھی۔
ان دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود انکوائری کمیشن نے نہ صرف اپنا کام مکمل کیا بلکہ وزیراعظم نے بھی رپورٹ جاری کرکے اپنا وعدہ پورا کیا۔ تاہم، حکومت کی چینی کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
قیمتیں بڑھتی گئیں اور اب یہ اس سطح پر آ چکی ہیں جس کی دھمکی شوگر مافیا نے دی تھی۔ حکومت کی جانب سے شوگر مافیا کو ٹھکانے لگانے کیلئے اعلان کردہ ایکشن پلان کے تحت، سات وفاقی و صوبائی اداروں کو شوگر کمیشن کی رپورٹ میں قصور وار بتائے گئے افراد کیخلاف سات مختلف طرح کے فوجداری، ریگولیٹری اور ٹیکس سے جڑے اقدامات کرنے کا ذمہ دیا گیا تھا۔
جن سیاست دانوں کی شوگر ملوں کا فارنزک آڈٹ میں نام آیا تھا ان سے نیب اور دیگر 6؍ ریاستی اداروں کو پوچھ گچھ کرنا تھی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ایکشن پلان پر عملدرآمد اطمینان بخش صورتحال سے نہیں گزر رہا۔ جن سات اداروں کا نام لیا گیا ہے ان میں نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، ایف بی آر، مسابقتی کمیشن، اسٹیٹ بینک اور صوبائی اینٹی کرپشن محکمے شامل ہیں۔
ایکشن پلان کے تحت جو کام کرنا تھے وہ یہ ہیں: گزشتہ پانچ سال میں صوبائی و وفاقی حکومت کی جانب سے شوگر انڈسٹری کو دی گئی 29؍ ارب روپے کی مجموعی سبسڈی کے حوالے سے تحقیقات کیلئے نیب کو ریفرنس بھیجنا۔
ایف بی آر سے کہا گیا تھا کہ ٹیکس بچانے اور بے نامی ٹرانزیکشن کے حوالے سے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے امور پر تحقیقات کرکے 90؍ دن میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔ مسابقتی کمیشن سے کہا گیا تھا کہ وہ شوگر انڈسٹری میں مسابقت مخالف اور کارٹلائزیشن سے جڑے امور کی تحقیقات کرے اور 90؍ دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔
اسٹیٹ بینک سے کہا گیا تھا کہ وہ اسٹاک کی فروخت، قرضے معاف کرائے جانے اور قرضوں کی ادائیگی اور برآمدات سے جڑے امور کی تحقیقات کرے۔ ایف آئی اے اور ایس ای سی پی سے کہا گیا تھا کہ وہ شوگر ملوں کے کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات کرے۔
صوبائی اینٹی کرپشن اداروں سے کہا گیا تھا کہ وہ شوگر مل مالکان کی صوبائی قوانین کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کرے جن میں گنے کے کاشت کاروں کو امدادی قیمت سے کم رقم کی ادائیگی اور غیر قانونی کٹوتیوں جیسے جرائم شامل ہیں۔ یہ رپورٹ 90؍ روز میں پیش کرنا تھی۔