Time 24 اگست ، 2020
بلاگ

حاصل بزنجو کی آخری خواہشیں

فوٹو: فائل

یہ 1989ء کی بات ہے ۔بلوچستان کے شہر اوتھل میں مقامی اسسٹنٹ کمشنر فواد حسن فواد اپنے دفتر میں کام کر رہےتھے کہ انہیں بتایا گیا کہ کوئی حاصل بزنجو آئے ہیں۔ ان کے ساتھ علاقے کے کچھ لوگ بھی ہیں اور وہ آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔

فواد حسن فواد نے انہیں ملاقات کیلئے بلالیا۔ حاصل بزنجو اندر آئے تو انہوں نے بڑے دھیمے لہجے میں اپنا سرسری سا تعارف کرانے کے بعد اپنے ساتھ آنے والوں کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ ان کے علاقے میں پانی نہیں ہے آپ مہربانی کریں اور ان کے علاقے میں ایک کنواں کھودنے کا بندوبست کر دیں۔

فواد صاحب کو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ بلوچستان کے سابق گورنر غوث بخش بزنجو کا بیٹا کسی سرکاری ملازم کی ٹرانسفر یا پوسٹنگ کیلئے نہیں آیا بلکہ علاقے میں ایک کنویں کیلئے سفارش کر رہا ہے۔

دوران گفتگو مزید پتہ چلا کہ حاصل بزنجو جن لوگوں کی سفارش کر رہے تھے وہ نہ تو ان کے جاننے والے تھے نہ ان کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے تھا۔حاصل صاحب خضدار سے کراچی جا رہے تھے۔ راستے میں وہ اوتھل میں رکے تو کچھ مقامی لوگوں نے انہیں پہچان کر اپنا مسئلہ بیان کیا تو حاصل بزنجو انہیں لیکر اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پہنچ گئے۔یہ فواد حسن فواد سے حاصل بزنجو کی پہلی ملاقات تھی۔

2013ء میں فواد حسن فواد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بن گئے۔ کچھ دنوں کے بعد آصف علی زرداری کی صدارت کی معیاد پوری ہوئی تو نئے صدر مملکت کیلئے صلاح مشورے شروع ہو گئے۔

ایک دن وزیر اعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں صدر کیلئے کون مناسب رہے گا؟ فواد حسن فواد نے حاصل بزنجو کا نام تجویز کر دیا۔کسی نے سردار عطاء اللہ مینگل اور کسی نے سرتاج عزیز کا نام تجویز کیا اور آخر میں ممنون حسین کوصدر مملکت بنانے کا فیصلہ ہوا۔

کچھ عرصے کے بعد حاصل بزنجو اسی حکومت میں وفاقی وزیر برائے بحری امور بنا دیئے گئے ۔2016ء میں پاکستان نیوی نے گوادر پورٹ کی سیکورٹی کیلئے ٹاسک فورس 88کے نام سے ایک خصوصی فورس قائم کی اور گوادر پورٹ پر اس کی تقریب رونمائی میں ہمیں بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔اس تقریب میںتینوں مسلح افواج کے سربراہان موجودتھے اور ٹاسک فورس 88نے اس تقریب کے مہمان خصوصی حاصل بزنجو کو سلامی دی۔

سلامی کے بعد میں نے حاصل بزنجو سے پوچھا کہ آج تینوں سروسز چیفسکے ساتھ کھڑے ہو کر سلامی لینا کیسا لگا؟حاصل بھائی نے میرے کان میں کہا ’’میں تو غدار نہیں تھا؟‘‘ اور پھر ہم نے مل کر ایک قہقہہ لگایا۔ چائے پیتے ہوئے حاصل بزنجو دوبارہ میرے قریب آئے اور کہا کہ تمہیں پتہ ہے آج اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ یہ سلامی انہیں دی جانی تھی ۔عین وقت پر وہ نہیں آئے لہٰذا سلامی مجھے دی گئی۔ میں نے پوچھا کہ نواز شریف کیوں نہیں آئے؟

حاصل مسکرائے اور کہا کہ شائد موسم خراب ہے۔ میں نے بھی معنی خیز انداز میں کہا کہ موسم کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ حاصل بزنجو سنجیدہ ہوگئے۔ مجھے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ چند سال پہلے تم نے یہاں گوادر میں مچھیروں کی بستی میں کیپٹل ٹاک کیا تھا۔ اب ان مچھیروں کو کہیں اور بھیجا جا رہا ہے ان کے بڑے مسائل ہیں تمہیں انکے پاس دوبارہ جانا چاہئے۔ میں نے کہا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟حاصل بھائی نے اثبات میں سرہلادیا۔

وہاں پر کچھ اور ارکان پارلیمینٹ بھی موجود تھے،میں نے ان سب کو ساتھ لیا اور ہم کیمرہ مین کے ہمراہ ساحل سمندر پر مچھیروں کےپاس پہنچ گئے۔ ان بیچاروں نے شکایات کے انبار لگا دیئے اور وزیر بحری امور انکی ہاں میں ہاں ملانےلگے۔ کچھ دیر بعد میں نے حاصل بزنجو سے کہا کہ یہاںسب کچھ کیمرے پر ریکارڈ ہو رہا ہے آپ مچھیروں کے ساتھی ہیں یا وفاقی وزیر ہیں؟

حاصل صاحب نے سر کھجایا اور کہا میں تو مچھیروں کا ساتھی ہوں۔ 20اگست 2020ءکی شام حاصل بزنجو کے انتقال کی خبر ملی تو مجھے حاصل بھائی کی یہی باتیں یاد آنے لگیں۔

2019ء کی ابتداء میں حاصل بزنجو کو پتہ چلا کہ انہیں کینسر ہے۔ ان کا علاج شروع ہوگیا لیکن وہ ڈاکٹروں کے مشوروں پر زیادہ عمل نہیں کرتے تھے۔ ایک دن چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے مجھے کہا کہ اپنے دوست کو سمجھائو وہ سگریٹ پینے سے باز نہیں آتا۔ ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو حاصل بھائی نے شرارتی لہجے میں کہا ’’آمریت اور بیماری کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘‘۔

زندگی کے آخری دنوں میں وہ کہتے کہ میرا ٹائم پورا ہو چکا اب احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔بلوچستان کے حالات پر بہت پریشان تھے ۔ایک دن کہنےلگے کہ آج جس جس کو بھی غدار کہا جاتا ہے اس کے بزرگوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔اس صدارتی الیکشن میں غوث بخش بزنجو بلوچستان میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔

انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی سیکورٹی سردار خیربخش مری کے سپرد کر رکھی تھی۔ایک دن خیر بخش مری نے بزنجو صاحب کو شکایت کی کہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن ذرا محترمہ کو بتا دیں کہ میں کون ہوں وہ سب کے سامنے مجھے انگریزی میں ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتی ہیں جس پر بزنجو صاحب نے کہا کہ جمہوریت کی خاطر یہ ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرلو۔

حاصل بزنجو کہا کرتے کہ یہ ریاست کیوں نہیں سوچتی کہ جو خیر بخش مری 1964ء میں فاطمہ جناح کی سیکورٹی کا نگران تھا وہ زندگی کے آخری دنوں میں علیحدگی پسند کیوں بنا؟

حاصل بزنجو کےساتھ مارچ 2013ء میں بنگلہ دیش کا ایک یادگار سفر مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔اس سفر میں عاصمہ جہانگیر، سلیمہ ہاشمی، طاہرہ حبیب جالب اور کچھ دیگر دوست بھی ہمارے ساتھ تھے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے 1971ء کے فوجی آپریشن کی مخالفت پر غوث بخش بزنجو، فیض احمد فیض، حبیب جالب، وارث میر کے علاوہ کچھ دیگر شخصیات کو فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا اور ہم یہ ایوارڈ وصول کرنے ڈھاکہ گئے تھے ۔ڈھاکہ میں ہم مزار شہداء گئے تو وزیٹرز بک میں ہمیں سابق صدر پرویز مشرف کے ریمارکس دکھائے گئے۔

انہوں نے 1971ء کے واقعات پر معذرت کی تھی۔ اس دورے کے دوران حاصل بزنجو اور عاصمہ جہانگیر نے ہر جگہ کہا کہ ہمارے بزرگوں نے 1971ء کے آپریشن کی مخالفت کی لیکن اب ہمیں آگے بڑھنا ہے لہٰذا 1971ء کے واقعات کے نام پر جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ ناانصافی نہ کی جائے۔ کچھ دن پہلے وزیر اعظم عمران خان اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تو حاصل بزنجو کا فون آیا۔

وہ کہہ رہے تھے کہ اب تو عمران خان بھی ہم غداروں کاساتھی بن گیا ہے۔ حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچ عسکریت پسندوں کےساتھ مذاکرات شروع کیے تھے جو انجام کو نہ پہنچ سکے جس کا حاصل کو بہت افسوس تھا۔

وہ ان عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانا چاہتے تھے اور یہی انکی آخری خواہشیں تھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔