Time 29 اگست ، 2020
بلاگ

چائے کی پیالی کیلئے ترستی اپوزیشن

فوٹو: فائل 

اپوزیشن کو تحریک انصاف سے یہ شکایت ہے کہ یہ سلیکٹڈ ہے، اسے2018 کے انتخابات میں پاکستان پر تبدیلی کے نام پر مسلط کیا گیا اور آج ملک کا یہ حال ہے کہ نہ معیشت سدھر رہی ہے نہ ہی گورننس ٹھیک ہو رہی ہے بلکہ حالات پہلے سے بدتر ہو رہے ہیں۔ 

شکایت کرنے والوں یعنی اپوزیشن بالخصوص ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بات اگر درست ہے کہ تحریک انصاف کو غلط طور پر الیکشن جتوایا گیا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلیکٹڈ یعنی عمران خان حکومت پر تو ان جماعتوں نے اپنی توپوں کا رخ خوب موڑا ہوا ہے لیکن دوسری طرف وہ ریاستی طاقتوں سے صرف رابطوں پر خوش ہوتے ہیں بلکہ اُنہی سے توقع رکھی ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت کو جیسے بھی ہو سکے نکال باہر پھینکیں۔ 

سویلین بالادستی کے اصول پر ان کی تقریریں سنیں، پارلیمنٹ اور میڈیا کے سامنے جو چہرہ دکھاتے ہیں اُس پر اعتبار کریں تو لگتا ہے بڑے انقلابی ہیں لیکن خود اداروں کو ہر روز سلام کرنے جاتے ہیں۔ 

ن لیگ کے بارے میں یہ تاثر حالیہ برسوں میں پیدا ہوا کہ بہت اصول پسند ہو چکی، ماضی سے بہت کچھ سیکھا لیکن جب ان کو اندر سے ٹٹولیں تو پتا چلتا ہے کہ آج اس پارٹی کے اکثر رہنما بڑے بے چین ہیں کہ کیسے طاقت سے ٹوٹا رشتہ دوبارہ استوار کیا جائے؟؟ پارٹی کے جس رہنماسے ادارے رابطہ کرتے ہیں وہ ن لیگ میں اہم ہو جاتا ہے۔ 

نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیانیہ پر قائم ہیں لیکن ن لیگ میں بھی سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب اور مریم نواز بھی اداروں سے رابطہ میں ہیں ، اُنہیں پیغام بھی ملتے ہیں اور پیغام لانے والوں کی ن لیگ میں عزت بھی ہے۔ 

پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے اور اس سلسلے میں آصف علی زرداری صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ بلاول جتنی مرضی اچھی تقریریں کر لیں، بعض اوقات بولڈ بیانات بھی دے دیتے ہیں لیکن جب وقتِ امتحاں آتا ہے تو پیپلز پارٹی وہی کرتی ہے جس کی اب تو اس سے توقع ہو چکی ہے اوراس پر بلاول خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔

اگر عمران خان اور تحریک انصاف کو سلیکٹڈ ہونے کے طعنے دینے ہیں تو پہلے خود کو تو بدلیں، اگر کسی غیر سیاسی مداخلت کی وجہ سے ماضی میں ن لیگ اور پی پی پی کی حکومتوں کو کمزور کیا گیا یا گرایا گیا اور وہ اچھا نہیں تھا تو پھر اس بات کی خواہش اب کیوں رکھی جائے کہ کوئی تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کو بھی گرا دے۔ 

اگر اصول پسند ہیں تو ہر وقت اس بات کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کیا حکومت اور ادارے ایک پیچ پر ہیں یا نہیں۔ اگر ایک پیچ پر نہ ہونے کا تاثر پیدا ہو تو اس پر خوش کیوں ہوا جاتا ہے اور یہ امیدیں کیوں باندھ لی کہ چلیں اب عمران خان کی حکومت زیادہ دیرنہیں چل سکتی۔ چند روز قبل پریس کانفرنس کے دوران اس سوال پرکہ نواز شریف کو باہر جانے اور مریم نواز کی خاموشی کا آیا کسی ڈیل سےتعلق ہے ، وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ اور احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے محکمہ زراعت کا نام لیا تو اپوزیشن کو یہ اچھا لگا اور یہ تاثر لیا گیا کہ ہاں اب حکومت اور اداروں کے درمیاں کوئی گڑبڑ ہو چکی لیکن چند ہی گھنٹوں میں شہزاد اکبر نے اپنے اس بیان پر معذرت کر لی۔

ایک طرف یہ معذرت اور دوسری طرف اس معذرت کے نتیجہ میں پیدا ہونی والی امید کا ٹوٹنا دونوں جمہوریت کے اُس کھوکھلے پن کو واضح کرتا ہے جس کو ہماری حکومتی جماعت ہو یا بڑی اپوزیشن جماعتیں درست کرنے کی بجائے مزید تقویت دے رہی ہیں۔ سلیکٹڈ پر تنقید اور طاقتور اداروں سے قربت کی کوشش، یہ وہ منافقت ہے جس نے ہماری سیاست اور نظام کو اعتبار کے قابل نہیں چھوڑا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔