23 ستمبر ، 2020
بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی کا موجودہ نظام عوام کو فائدہ نہیں دے رہا، 5 سال ایم کیو ایم نے کیا کیا؟ میئر کراچی نے تو شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔
بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ میں پانچ متفرق درخواستوں پرسماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی پسند نہیں بلکہ لازمی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیےکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات کی منتقلی سے ہچکچا رہی ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں لوگ سڑکوں پر مر رہے تھے، گھروں میں پانی داخل ہو چکا تھا، سڑکوں پر پانی کھڑا تھا لیکن کے ایم سی عملہ کہیں نظر نہ آیا، کاغذوں میں عملہ موجود ہے لیکن موقع پر دکھائی نہیں دیتا، اس کا مطلب ہے گھوسٹ ملازمین ہیں اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں کھائے جا رہے ہیں، ہم نے وہ دور دیکھا ہے جب رات کو تین بجے کام شروع ہو جاتا تھا سڑکیں دھوئی جاتی تھیں، کہاں گئے وہ لوگ؟
جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ کیا گارنٹی ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کروائیں گی، کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا، اس کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کراچی، اسلام آباد کی نسبت بڑا شہر ہے، اسلام آباد میں بھی اداروں کے درمیان اختیارات کا ٹکراؤ رہتا ہے، جب تک قانون سازی نہیں ہوگی اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مقامی حکومت آپ کی تھی آپ نے اپنے دور میں کیا کیا؟ لوگ ڈوب کر مر رہے تھے، گھر گر رہے تھے، بلدیاتی حکومت کہاں تھی؟ کے ایم سی کے 20 ہزار ملازمین تنخواہیں لیتے ہیں، سڑکوں پر کیوں نہیں نظر آئے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سندھ کا بلدیاتی قانون تین میں ہے نہ 13 میں، شہریوں کا مفاد دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کرلیا، مزید سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے سابق میئر کراچی وسیم اختر کی سرزنش کی تھی۔