25 ستمبر ، 2020
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ احتساب کے عمل میں پسند نا پسند نہیں ہونی چاہیے، سلیکٹڈ احتساب عدالتوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بینک ڈیفالٹ کے ملزم ارشد علی کی بریت کے خلاف قومی احتساب بیور (نیب) کی اپیل پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ جس وقت یہ قرضے دیے گئے کیا ریاست سو رہی تھی؟ ان قرضوں میں سارے بڑے آدمی ہیں، کوئی کہاں بیٹھا ہے تو کوئی کہاں؟ بینک سے قرضہ لینا نیب کا کیس کیسے ہوگیا؟
اس پر نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بورڈ آ ف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر یہ قرضہ جاری کیا گیا، اصل قصور وار ذوالفقار نامی شخص تھا جو فوت ہوگیا۔
اس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ احتساب کے عمل میں پسند نا پسند نہیں ہونی چاہیے، احتساب کا عمل صرف قانون کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔
جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ سلیکٹڈ احتساب عدالتوں کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
اس پر جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ لاکھوں لوگ بینکوں کے ڈیفالٹرز ہیں تو کیا نیب نے سب کے خلاف کارروائی کی؟ نیب نے کتنے بینک نادہندگان کے خلاف ریفرنسز بنائے؟ یہ کیس نیب کے دائرے میں نہیں آتا۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ منظور نظر لوگوں کو نیب چھوڑ دیتا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ ملزم نے پلی بارگین کے تحت 56 لاکھ روپے واپس بھی کیے ہیں، ملزم ایک دوسرے مقدمے کے باعث جیل میں ہے۔
جسٹس قاضی امین نے اسپیشل پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ وہ کیس واپس لینے کیلئے نیب سے ہدایات لے لیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی 17 مارچ کو دی گئی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں بھی احتساب کے نظام پر سوال اٹھائے گئے تھے۔