26 ستمبر ، 2020
میرا پیدائشی نام تو مقابل خان جھگڑا ہے مگر تضادستان کی سیاست اور سماج میں میرے کارناموں کے پیش نظر مجھے پیار سے فسادی کہہ کر بلاتے ہیں، اب تو لوگوں کو میرا اصل نام تک بھول چکا ہے، بس ہر طرف میرے کارناموں کا چرچا ہے۔
یہ معاشرہ شک شبہ، حسد و عناد اور غصہ و انتقام کے جذبوں سے سرشار ہے، اس لیے میرے جیسے فسادی کے راستے ہر وقت کھلے رہتے ہیں، میں تھوڑا سا کام کرتا ہوں باقی کام معاشرے کے لوگ خود اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔
میں نے گزشتہ دن مٹھائی کا ایک چھوٹا سا ذرہ اٹھا کر ایک جگہ رکھا، وہاں مکھیاں اکٹھی ہو گئیں، مکھیوں کے چھپکلیاں اور چوہے جبکہ اُن کے بعد بلیاں اور کتے وہاں جمع ہو گئے، بالآخر انسان بھی وہاں جمع ہو گئے، دنگا ہو گیا ، سماج کے دیگر مسائل پر بھی میں ایسے ہی لڑائی کرواتا ہوں۔
میرا فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ لڑائیاں نہ ہوں تو معاشرے بےقابو ہو جائیں، حکومتی بندھن اور نظم و ضبط ختم ہو جائے، دنگے، فساد اور فتنے سے معاشرے کے تضادات باہر آتے رہتے ہیں، یوں کوئی بھی معاشرہ متحد ہو کر بےقابو نہیں ہو سکتا۔
میں صاف بتائے دیتا ہوں کہ میں سیاست خانوں اور عسکری خانوں کی ملاقاتوں کے خلاف ہوں، ان کو دور دور رہنا چاہیے، مجھے جونہی پتا چلا کہ سیاست خان اور عسکری خان کی خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں، میرا پارہ چڑھ گیا اور میں نے اس مذاکراتی عمل کو پارہ پارہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے لڑے رہنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، اگر سیاست اور عسکری خان مل گئے تو فسادی اور اس کے بھائی فتنہ اور اس کی بہن لڑائی کا کیا بنے گا؟ ہمارا تو سارا خاندان ہی بےروزگار ہو جائے گا، والد میاں جھگڑا بوڑھا ہے لیکن ابھی تک برسرروزگار ہے، والدہ مار کٹائی کے دیے گئے فیشن اب بھی سماج میں مقبول ہیں، اس لئے ہماری خاندانی خواہش ہے کہ لڑائیاں، جھگڑے، فتنے، فساد، ہاتھا پائی، مار کٹائی جاری رہے وگرنہ یہ معاشرہ خدا کی ہمسری کا دعویٰ کرنے لگے گا۔
خدا لگتی کہوں میجر جنرل غلام عمر کے لڑکے محمد زبیر کو کیا ضرورت تھی کہ سیاست میں جا کر بال سفید کرے اور اگر سیاست کے بازار میں چلا ہی گیا تھا، گورنر بھی لگ گیا تھا تو چپ ہو کر بیٹھتا، یہ عسکری خانوں کو ملنے کیوں پہنچ جاتا ہے۔
زبیر ہو، خواجہ آصف ہو یا کوئی اور سیاست خان، یہ جب بھی عسکری خانوں سے ملنے جاتے ہیں ذہن میں کوئی سازش تیار کرکے جاتے ہیں اور اگر ان ملاقاتوں کو روکا نہ گیا تو یہ نظام بدلیں گے، سیاست تلپٹ کر دیں گے، اس لئے انہیں روکنا لازم ہے۔
میں فسادی بقلم خود یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ان سیاست خانوں کو بیچ چوراہے میں کھڑا کرکے گندا کرنا میرا فرض منصبی ہے۔ مجھے تو سیاست خانوں کی آل پارٹیز کانفرنس بھی بہت بری لگی ہے، مجھے لوگوں کا اکٹھا بیٹھنا اور پھر اتفاق و اتحاد کی بات کرنا سخت ناپسند ہے، سیاست خان آپس میں لڑتے ہوئے اچھے لگتے ہیں، تمام لڑاکا سیاست خان میرے ایجنٹ ہیں اور میں ہر اتحادی سیاستدان کا دشمن ہوں، یہ اتفاق و اتحاد کرکے حکومتوں کو گراتے ہیں، یہ آل پارٹیز کانفرنس کرکے نئے الیکشن کیلئے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں الیکشن کا سرے سے ہی خلاف ہوں، ملک میں آمریت ہونی چاہئے، لوگوں کو ڈنڈے سے سیدھا کرنا چاہئے، یہی ان کا حل ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں میرا ہم جایہ فسادی بہت خوش ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ہمارے خاندان کا پسندیدہ ترین لیڈر ہے، اس نے بھارت میں طرح طرح کی لڑائیوں کو فروغ دیا ہے، ہندو اور مسلمان کو لڑوا دیا ہے، اس سے فتنہ و فساد، لڑائی جھگڑے کی راہ ہموار ہو رہی ہے، اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ بھی ہمارے ہی فلسفے پر گامزن ہے، وہ سفید فام اور سیاہ فام، امریکن اور میکسیکن میں فرق رکھتا ہے، وہ بھی اتحاد کا دشمن ہے۔
اصل میں آج کل اسی فلسفے کے تحت ملک اور اقوام کامیاب ہو سکتی ہیں، تقسیم کرو اور لڑواؤ ہی دنیا کی بہترین حکمت عملی ہے۔ یہی مودی کی پالیسی ہے اور یہی امریکہ کے پاپولر صدر ٹرمپ کی پالیسی ہے اور یہی پالیسی پاکستان میں بھی رائج ہونی چاہئے۔ جتنا جھگڑا فساد ہوگا اس کے نتیجے میں ملک کی اکثریتی آبادی خوشحال ہوگی، اقلیتیں اور اپوزیشن دونوں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کو دبایا جائے، ان پر مظالم روا رکھے جائیں، جب یہ پیدا ہی کمزور ہوئے ہیں تو انہیں تحفظ دینے کا فائدہ؟ عقل کا دستور یہی کہتا ہے اور اسی پر عمل ہونا چاہیے۔
فسادی فلسفے میں میڈیا کی آزادی ہونی ہی نہیں چاہیے، یہ میڈیا غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے، اس لیے اسے بند ہی رہنا چاہیے، ہر معاملے کو راز رہنا چاہئے، ملاقاتیں ہوں تو ان کی خبر باہر نہیں آنی چاہیے، سیاست خان آپس میں ملیں یا عسکری خانوں سے ملیں میڈیا پر ان کی خبریں باہر نکالنے پر پابندی لگانی چاہیے، اگر سچ پوچھیں تو میں سیاست ہی کے سرے سے خلاف ہوں، نہ ہو بانس نہ بجے بانسری۔
لوگوں کو قبیلوں کی شکل میں رہنا چاہیے، قبیلوں کی جنگ و جدل ہو، فتنہ و فساد ہو تو دنیا کی آبادی بھی کنٹرول ہوگی اور قدرت نے جو نظام بنایا تھا وہ بھی قائم رہے گا۔
یہ مشینوں کی حکومت، یہ جمہوریت، یہ نظام سب فضول ہیں، اصل بات یہ ہے کہ معاشروں میں تقسیم کا عمل جاری رہنا چاہیے، اس سے نئے اور مضبوط انسان اور معاشرے تشکیل پاتے ہیں، جس دن سے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ہنگامہ اور شور و غل برپا ہوا ہے ہمارے گھر میں عید کا سماں ہے، عسکری خانوں اور سیاست خانوں کی لڑائی میں ہی خانہ جنگی اور تقسیم در تقسیم ہوگی، ہمارا مقصد یہ ہے کہ اتحاد قائم نہ ہو، انتشار بڑھے، انتشار اور لڑائیاں بڑھیں گی تبھی ایک سپر قوم پیدا ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔