04 اکتوبر ، 2020
حضرت رفیع سودا نے کہا تھا:
جرم ہے اِس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں، منہ میں زباں ہے کہ نہیں
اِس شعر کے مصداق عوام اِس مخمصے میں تھے کہ میاں نواز شریف نے کیوں خاموشی اختیار کرلی ہے، اپنے منفرد جارحانہ و بےباکانہ طرزِ تکلم کیلئے مشہور مریم صاحبہ نے کیوں چپ کا روزہ کھ لیا ہے، مگر اب بولنے پر اصرار کرنے والوں کی اُمید برآئی ہے اور تلاطم و بلاخیز آوازیں ایک جہاں کو متوجہ کئے ہوئے ہیں۔
یہ سوال بھی مگر ہر گاہ عام ہے کہ کہیں یہ آوازیں پھر تو ’’لاپتا‘‘ نہیں ہو جائیں گی؟ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کسی اور فن و ہنر میں خود کفیل ہو نہ ہو مگر یہاں ایک سے ایک بقراط برسرِ تکرار ہے۔
پھر سوشل میڈیا نے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جہاں بلاامتیاز و بیک وقت یہ بولنے و لکھنے کا شوق پورا کر سکتے ہیں، یہ ماہرین اِن دنوں کہہ رہے ہیں کہ بیماری کے باوجود اگر میاں صاحب نے فائنل راؤنڈ کا فیصلہ کرلیا ہے تو پردے کے پیچھے شاید کچھ ہے۔
ایسی چہ میگوئیاں یوں بےوزن نہیں بلکہ قابلِ غور ہیں کہ پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز اندرونی و بیرونی مہربانیوں کے مرہونِ منت ہی رہے ہیں، کون نہیں جانتا کہ سردجنگ کے زمانے میں امریکا کی منشا ومرضی کے بغیر یہاں اقتدار کے ایوانوں میں پتا تک نہیں ہلتا تھا، اندرونی اثر اپنی جگہ مگر پھر ایک دور یہ بھی آیا کہ دو برادر ممالک بھی اس میں حصہ دار بن گئے یا پھر خودمختار۔
اس حوالے سے یہ سوچ بھی ہے کہ میاں صاحب کے پاکستان سے باہر جانے میں اندرونی شفقت تو شامل ہی تھی کہ اب دونوں برادر ممالک چونکہ موجودہ حکومت سے ناراض لگتے ہیں، اس سبب سے شاید کسی کی قسمت جاگ اُٹھے، ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نہیں معاملات جوں کے توں ہی ہیں، اسی وجہ سے شہباز شریف کسی کا دل نہ توڑنے کی خاطر جیل جانے کے آرزومند تھے تاکہ تحریک چلانے پر کسی کی ناراضی سے بچ جائیں، آسمان نے ان کی آہ سن لی اور عدالت نے اُنہیں جیل بھیج دیا۔ یہ تمام ریب و تشکیک اپنی جگہ، اہم سوال مگر یہ ہے کہ غیبی مدد کے بغیر کیا اپوزیشن اس قابل ہے کہ وہ کوئی تحریک برپا کرسکے۔
بعض حلقوں کے مطابق ن لیگ کی مقبولیت چہار دام ہے، گزشتہ بارشوں کے بعد میاں شہباز شریف جب کراچی آئے تو اتنے لوگ اُن کے پروگرام میں آئے کہ منتظمین کیلئے سنبھالنا مشکل ہوگیا۔
کراچی سمیت سندھ میں ن لیگ کی کوئی فعال تنظیم نہیں، یہی صورتحال ملک بھر کی ہے لیکن اس پذیرائی کی بنیادی وجہ میاں صاحب اور مریم صاحبہ کا کردار ہے، نیز مہنگائی، بےروزگاری اور گڈگورننس کا فقدان ہے جس کے باعث عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ تبدیلی سرکار کی تبدیلی کے ماسوا کسی اور حل میں ان کے دکھوں کا مداوا نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن عوام کی اس تمنا کو پورا کرنے کے قابل ہے؟ بعض حلقے کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک سمیت متعدد مواقع پر پی پی کے راہ بروں کا رویہ کچھ اس شعر کے حسبِ حال رہا۔
کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتا ہوں چھپ کے دامنِ ابرِ بہار میں
پی پی چاہے تو اس تحریک کے ذریعے ملک بھر میں اپنی تنظیم کو فعال بنا سکتی ہے لیکن وہ جانتی ہے کہ تحریک کی کامیابی پر سارا کچھ ن لیگ ہی کو ملنے کے امکانات ہیں، اس لئے یہ حلقے خدشہ ظاہر کررہےہیں کہ شاید پی پی کے ظاہر و باطن میں موجود فرق برقرار ہی رہے اور اس موقع کو غنیمت جان کر درپردہ کرپشن کیسز میں مزید رعایت حاصل کرلے۔
تحریک کے اعلان کے بعد اسی طرح کی بلیک میلنگ کے مواقع حکومت کے اتحادیوں کو بھی میسر آجائیں گے، یہی پاکستانی سیاست کی مکروہ روایت ہے، ایک دور تھا کہ جمہوری تحریکوں سے بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کے اوسان خطا ہوتے تھے مگر اُس دور کے لیڈروں کا دامن صاف تھا، حکمران بھینس چوری کا مقدمہ قائم نہ کرتے تو کیا کرتے۔
آج کوئی مانے یا نہ مانے یا یہ کہے کہ ایسی باتیں کہنے والے دراصل جمہوری تحریک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اکثر سیاستدانوں نے عوامی دولت لوٹنے سے دریغ نہیں کیا۔
محترمہ بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بالخصوص کرپشن کی باتیں زبان زدِ عام تھیں لیکن اُن کا کمال یہ تھا کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی وارننگ کے باوجود وہ پاکستان آئیں، جان تو دیدی لیکن کمپرومائز نہیں کیا۔
آج ہمارے سیاستدان کرپشن کے ناسور کی وجہ سے اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اُنہیں قدم قدم پر کمپرومائز کرنا پڑ رہا ہے، ایسی صورت میں آج کا سوال یہ ہے کہ کسی غیبی مدد کے بغیر کیا اپوزیشن راہ نما وہ جگر رکھتے ہیں جو کسی تحریک کی کامیابی کیلئے نکتہ اول ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔