بلاگ
Time 07 اکتوبر ، 2020

منتخب وزیراعظم

فوٹو: فائل 

میری دعا ہے کہ اِن 73برسوں میں عمران خان اس ملک کے پہلے وزیراعظم بنیں جو اپنی میعاد پوری کریں،طرز حکمرانی پر تنقید ہو سکتی ہے مگر اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے طے کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں سویلین بالا دستی کو تسلیم کیا جائے، خود تجربات کرنے چھوڑ دیں۔

عمران خان خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کی آغوش میں آنکھ کھولی مگر اس وقت ان کی کابینہ میں آمریت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ 

وہ سیاست میں 1995میں آئے جس وقت ملک میں ایک جمہوری حکومت تھی، انہیں شکر گزار ہونا چاہیے، ان سیاستدانوں، کارکنوں، صحافیوں، مزدوروں، کسانوں، وکیلوں کا، جنہوں نے جمہوریت کی خاطر قربانیاں دیں، پھانسی چڑھے، کوڑے کھائے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 

آپ خوش قسمت ہیں کہ چند دن جیل میں رہے، ورنہ یہاں تو جیل میں ڈال کر، شاہی قلعہ میں بند کرکے بھول جاتے تھے، ایوب خان کی تعریف کرتے آپ تھکتے نہیں ہیں، کبھی حسن ناصر کا بھی ذکر ہو جائے جو آمریت کے خلاف پہلا شہید جمہوریت ہے۔ 

کبھی نظیر عباسی، کا بھی ذکر کردیا کریں، چلیں ان سب کو چھوڑیں، ذوالفقار علی بھٹو پر آ جائیں، آپ نے درست کہا کہ اس نے آمریت کی آغوش میں آنکھ کھولی مگر دو آمروں کے خلاف جدوجہد کی اور ایک کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گیا، اس ملک کا آئین اور ایٹم بم اسی کا مرہونِ منت ہے۔

آپ نے کہا کہ کسی کی جرأت نہیں کہ وہ آپ سے استعفیٰ مانگے، خدا کرے ایسا ہی ہو، نواز شریف نے 12اکتوبر 1999کو انکار کیا تو انہیں وزیراعظم ہاؤس سے زبردستی باہر نکال دیا گیا۔ 

اس دوران جوکچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، کوئی بھی منتخب وزیراعظم یا حکومت ہو اس کی پالیسیوں سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے اور انہیں گھر بھیجنے کا طریقہ بھی آئین میں درج ہے مگر کسی غیرآئینی اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ 

آپ نے تو 2002میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے حق میں ووٹ بھی ڈالا، ایک آپ سے کیا شکایت، اس اقدام کی حمایت توبدقسمتی سے پی پی پی اور بےنظیر بھٹو نے بھی کی۔

محترم وزیراعظم، جس ملک میں کوئی منتخب لیڈر اپنی میعاد پوری نہ کر سکا ہو جہاں صرف دو حکومتوں نے اپنی میعاد پوری کی ہو وہاں آمروں نے 10سال،11سال اور 9سال حکومتیں کیں اور کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ 

دوسری طرف ایک پھانسی چڑھا، ایک شہید ہوئیں اور ایک سزا یافتہ ٹھہرا، اس ملک میں سیاستدان کرپٹ بھی ہیں اور خراب طرز حکمرانی کے ذمہ دار بھی، اچھا ہے وہ قانون کی گرفت میں ہیں مگر یہ یکطرفہ ٹریفک آخر کب تک؟ احتساب فیس دیکھ کر ہو تو وہ انتقام ہوتا ہے، ورنہ تو چیئرمین نیب کو اب تک استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

اچھا ہوا کہ آپ نے ماضی کے حکمرانوں سے سبق سیکھا، آپ نے کہا کہ 2014میں جنرل راحیل شریف نے آپ سے دھرنا ختم کرنے کا کہا مگر آپ نے انکار کر دیا مگر آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے نواز شریف کےاستعفیٰ کیلئے دباؤ ڈالنے کا کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ 

اس وقت تو ایک تاریخ رقم ہوئی اور پہلی بار ایک منتخب پارلیمنٹ مکمل طور پر ایک وزیراعظم کے ساتھ نہیں بلکہ نظام کے ساتھ کھڑی ہوئی، اصول کے ساتھ کھڑی ہوئی، اس وقت آپ کہاں تھے؟ شاید انتظار تھا کہ کب استعفیٰ آتا ہے، کنٹینر کی وہ چہل قدمی آج تک یاد ہے جب وزیر اعظم ہاؤس میں ایک طویل ملاقات جاری تھی۔ 

آپ آمریت کی پیداوار نہیں مگر آمر کا ساتھ ضرور دیا اور بڑی بات ہے کہ آپ اس کا ساتھ دینے اور حمایت کرنے پر شرمندہ ہیں، پی پی پی کے قائدین کو بھی NROکی غلطی تسلیم کرنی چاہیے اور نواز شریف کو بھی اپنے ماضی کے کردار پر معافی مانگنی چاہئے۔

نواز شریف سے لیکر آصف زرداری تک سب قابلِ احتساب ہیں مگر یہ تو پھر جیل گئے، اپنی ہی حکومتوں میں کبھی یوسف رضا گیلانی ،کبھی نواز شریف نااہل ٹھہرے۔ زرداری صاحب بھی جیل کے اندر اور باہر رہے مگر کوئی ایک مثال کسی آمر کی دی جا سکتی ہے۔ 

بس اتنا ہی فرق ہے دور آمریت اور دور جمہوریت میں، آپ منتخب لوگوں کو جتنا چاہے برا بھلا کہو، باغی اور غدارکہو، کبھی بدعنوان کہو، آپ پر کوئی بھی پابندی نہیں ہے۔ آمریت ہو یا جمہوریت برا صرف وزیراعظم کو کہا جا سکتا ہے۔

ہمارے ایک انتہائی قابلِ احترام دانشور نے حال ہی میں لکھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے، بنانے والے اور کھانے والے، کیسے کیسےحکمران گزرے ہیں، قائداعظم سے لیکر خواجہ ناظم الدین تک کا رہن سہن کتنا سادہ تھا مگر کیا وجہ تھی کہ پہلے وزیراعظم کو شہید کر دیا گیا اور ابتدائی دس برسوں میں ہی پتا چل گیا کہ اس ملک میں پاکستان کی بانی جماعت بھی سیاسی استحکام نہ دے سکی۔ 

پھر وہ آئے جنہیں آئینی حق حاصل نہیں ہوتا مگر وہ نظریہ ضرورت کے تحت یہ حق لے لیتے ہیں، کبھی وہ صدارتی نظام کا تجربہ کرتے ہیں، بنیادی جمہوریت کے ذریعے کبھی خود ہی مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ 

کبھی جاتے جاتے ایک اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو توڑ کر اقتدار پھر ایک آمر کے سپرد کر دیتاہے، دوسرا آتا ہے تو ملک تقسیم ہو جاتا ہے، کہتے ہیں ذمہ دار سیاستدان، وہ بھی تھے مگر حضور حکمران کون تھا؟ ایک کو اعزاز کے ساتھ دفنایا تو دوسرے کے جنازے میں کسی کو شرکت کی اجازت تک نہ تھی۔

1972سے 1977 تک ایک منتخب حکومت رہی، ابھی عبوری آئین ہی بنا تھا کہ مستقل آئین سے کچھ ماہ پہلے ہی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش پکڑی گئی، شاید اسی وجہ سے پھر 1973کے آئین میں آرٹیکل 6کو شامل کیا گیا۔ 

1977سے 1988تک طویل مارشل لا، غیرجماعتی نظام کا تجربہ کیا گیا، اب محمد خان جونیجو مرحوم تو کرپٹ نہیں تھا مگر وہ بھی برداشت نہیں ہوا، کیونکہ وہ آزادانہ فیصلے کرنے لگا تھا۔ 

محترم وزیراعظم، آپ یہ سوال نواز شریف سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ان کی کبھی کسی آرمی چیف سے کیوں نہیں بنی؟ مگر یہ سوال بھی تو کریں کہ آخر حکومتیں بنانا اور گرانا، جماعتیں توڑنا یہ سب کون کرتا رہا ہے؟ اب پھر ایک تجربہ کیا جا رہا ہے، ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کا جس میں بظاہر حکومت سویلین کی ہوگی بالا دستی ہو یا نہ ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔