Time 11 اکتوبر ، 2020
بلاگ

غداری کی اصل کہانی

فوٹو: فائل 

حیدرعلی آتش نےکہاتھا

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں

گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

برسوں قبل کیا کوئی سوچ بھی سکتاتھا کہ وہ پنجاب جو بنگال سمیت چھوٹے صوبوں کی قیادت پر غداری کے الزمات لگانے والوں کا پشتی بان سمجھاجاتاتھا اُس پنجاب سے ’غداری‘ کے الزامات پر مخالفت کی سب سے زیادہ آوازیں آنا شروع ہوجائیں گی۔

کون نہیں جانتاکہ جب مسلم لیگ کو خان بہادروں، سر، جاگیرداروں اور انگریز کی تنخواہ دار بیوروکریسی نے اپنی سیاسی اتحادی بنایاتوپہلا وار مقبول عوامی لیڈروں پرکیا گیا۔

پاکستان میں ایسے الزامات کی قبیح ومذموم روایت باچاخان، حسین شہید سہروردی اور محترمہ فاطمہ جناح سےہوتے ہوتے اب جب میاں نواز شریف تک آپہنچی ہے تو خداخداکرکے اس مکروہ الزام کیخلاف وہ فضا بنتی دکھائی دے رہی ہےجو کسی ملک میں سیاسی رواداری اور یکجہتی کیلئے خشت ِ اول ہوتی ہے۔

اس کی وجہ شاید وہ ہو جس کی طرف گزشتہ روز کیپٹن محمدصفدر نے اشارہ کیا تھا، اُن کا کہنا تھا ’ولی خان نے کہا تھاکہ اہلِ پنجاب کو اپنا لیڈر مل جائے تو حقیقی جمہوریت کے باوصف ملک کی قسمت سنورجائیگی،بقول کیپٹن صفدراب ملک کی تقدیر سنورنےکے دن آنے والے ہیں‘ ۔

امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ غداری کے الزامات باچاخان اور اُن کے خانوادے پرلگے لیکن اُن پر ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا،یہ سلسلہ جون 1948میں باچاخان ،ولی خان اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کی گرفتاری او ر4جولائی 1948کو خدائی خدمتگار تنظیم پرپابندی سے شروع ہوتاہے اور حیدرآباد سازش کیس تک پہنچتا ہے۔

اس دوران دو مرتبہ ولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگتی ہے ولی خان جیل میں ہوتےہیں لیکن جمہوری سیاست رواں رکھنے کیلئے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی پارٹی وجود میں لائی جاتی ہے۔

گویا تمام تر جبر و قدغنوں کے باوجود اس خانوادے کاجمہوری عمل کیلئے جدوجہد پر ایقان متزلزل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ تشدد یا کوئی غیر جمہوری راستہ اپناتےہیں ۔

دوسری طرف جگتوفرنٹ سے عوامی لیگ تک وہ سیاسی زعما جنہوں نے مسلم لیگ وتحریک پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار اداکیا تھا جب باچاخان اور ولی خان پر روا رکھے جانے والےمظالم و ہتھکنڈوں ہی کی طرح مظالم کا شکار ہوگئےاور جس طرح خدائی خدمتگارتنظیم اورنیشنل عوامی پارٹی کے عوامی مینڈیٹ کو ماننے سے انکار کیا گیا تھا۔

عوامی لیگ کی مینڈیٹ سے اُسی طرح انکارکردیا گیا تو اُنہوں نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، کیپٹن صفدرکوولی خان کی جو بات آج یاد آئی ہے وہ زیرک ولی خان نے 40 برس قبل کہی تھی۔

جون 1978میں بی بی سی کو انٹرویو میں ولی خان نے کہا تھا’جب تک پنجاب Indigenous (مقامی) لیڈر پیدا نہیں کر لیتا، پاکستان کی سیاست میں توازن قائم نہیں ہو سکتا، پنجاب کی اپنی قیادت ہوگی تو نہ تو وہ کسی آمرکوپنجاب کی طاقت استعمال کرنے دیگی اورنہ ہی وہ کسی آمر کوایسی اجازت دیگی جس سے پنجاب کی جمہوری قیادت کو کمزور کیا جاسکے، ظاہرہےجب جمہوریت مضبوط ہوگی تو اس سے چھوٹے صوبوں کےاُن حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گاجو شخصی آمریتوں میں پامال ہوتے رہے ہیں‘ ۔

پاکستانی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ پنجاب کے سیاسی جاگیردار چونکہ جمہوریت سے خوف زدہ رہتے تھے اس لیے وہ جمہوریت پسند رہنماؤں کو غداری کے الزامات کے ذریعے پنجاب میں بدنام کرنے کی کوشش کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عبدالصمداچکزئی، شیخ مجیب الرحمان، عطاءاللّٰہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مر ی، فیض صاحب اور جالب پر بھی غداری کے فتوے لگے۔

یہ وہ دور تھا جب امریکی مفادات آج کی نسبت کہیں زیادہ پاکستان سے وابستہ تھے، یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا، دنیا دوبلاکوں میں تقسیم تھی، عالمی سامراج کیلئے پاکستان میں جمہوریت ناقابل برداشت تھی، اس لیے اُس نے آمروں کی پشت پناہی کی اورآمروں نے لے پالک سیاستدانوں کی کھیپ پیدا کی۔

جو لوگ آج کہتے ہیں کہ چند استثنائی صورتوں کے پاکستانی تمام سیاسی قیادت کی پرداخت آمروں کے گملوں میں ہوئی ہے تو کوئی ایسا غلط بھی نہیں کہتے، خلاصہ یہ ہے کہ اس دورکی ضرورت بھی یہ تھی کہ جمہوری سیاستدانوں کو عوام کی نظروں میں معتوب بنانے کیلئے اُنہیں غدارقرار دیا جائے۔

آج نواز شریف پر لگنے والے غداری کے الزامات کے بعد اگر پنجاب کے عوام کو یہ ادراک ہونے لگاہے کہ غداری کے الزامات کے پیچھے ’’ اصل کہانی ‘‘ کیا ہوتی ہے تو ہم جیسے کج فہموں کے مطابق یہ پاکستان کے تابندہ مستقبل کا استعارہ ہے، خدا کرے کہ یہ محض خوش فہمی نہ ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔