03 نومبر ، 2020
ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر عجیب بے یقینی کی صورت حال پیدا ہورہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی بھی قابل اعتبار نہیں رہا۔ جو کسی حد تک اپنے آپ کو واحد امید بتانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے اب انگلیاں ان کی طرف اٹھ چکی ہیں۔ ایسے میں "عوام" کا انتہائی نا امید ہو جانا فطری عمل ہوگا۔
سیاسی قیادت اور مختلف ادارے آپس میں الجھ کر ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔ اختلافات اس سطح پر آچکے ہیں کہ دونوں جانب سے ملک کے اہم ترین داخلی، خارجی اور دیگر حساس معاملات پر ماضی کے اختلافات کو سامنے لایا جارہا ہے۔
ملک کی معاشی صورت حال کا جائزہ لیں تو نتائج حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ گزشتہ سالوں سے جاری اس سرد جنگ میں شدت آگئی ہے۔ میاں نواز شریف خرابی صحت کی وجہ سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کا بیانیہ روز بروز سخت ہوتا جارہا ہے۔
دوسری جانب عدالت میں ان پر قائم کیسز میں ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جاچکے۔ میاں نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بھی گرفتار ہیں۔ اب ان کی بیٹی مریم نواز ایک متحرک سیاسی رہ نما اور جانشین کے طور پرمسلم لیگ ن کے قائد کی ترجمانی کررہی ہیں۔ مریم نواز خود بھی مقدمات کی زد میں ہیں اور جیل کاٹ کر ضمانت پر سیاسی تحریک کی قیادت کررہی ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کے نئے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں اور اس اتحاد کے انتہائی اہم کردار سمجھے جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خلاف ہونے والی نیب کاروائی پر بعض بیانات جاری کیے جس پر اداروں کو براہ راست پیغام دیا کہ معاملات کو مزید نہ الجھایا جائے۔ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پی ڈی ایم ملک بھر میں حکومت کے خلاف تحریک شروع کرچکی ہے جس میں جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام دونوں جماعتیں اس وقت کہیں بھی اقتدار نہیں رکھتیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے۔ تینوں اپوزیشن اتحاد کی اہم جماعتیں ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا انداز سیاست کسی طرح بھی وفاق یا اداروں سے انتہا پر نہیں جارہا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اداروں سے براہ راست تصادم کی پالیسی اختیار کرتی نظر نہیں آتی لیکن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام کے بیانیے کی حامی ہی تصور کی جائے گی۔
ملک اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے فریقین کو انتہائی ذمہ دارانہ عمل کی ضرورت ہے۔ ملک کے اہم ترین معاملات چاہے سیاسی ہوں، دفاعی ہوں، انتظامی ہوں یا عدالتی امور سے متعلق انہیں کسی بھی اختلاف کی صورت میں ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اختلاف میں مزید شدت آئی اور جذبات میں لوگ وہ باتیں بھی بول دیں گے جنہیں ملکی راز تصور کیا جاتا ہے۔ معاملہ اس حد تک الجھ چکا ہے کہ بیک ڈور ہونے والی ملاقاتوں اور حکومت سازی اور حکومت گرانے کے واقعات کو بھی بعض عناصر کی جانب سے منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔
یقیناً اس صورت حال کو کسی صورت حوصلہ افزاء نہیں کہا جاسکتا۔ تمام راستوں کو بند کردیا جائے گا تو نتائج کیا ہوں گے؟ یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ غلطی کوئی ایک طرف سے نہیں بلکہ سب فریقین کی جانب سے ہورہی ہے اور اس عمل سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے بہتر ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سمجھداری سے طے کیا جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔