15 نومبر ، 2020
غالب یاد آرہے ہیں:
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ درپہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منتِ درباں کیے ہوئے
اسٹیبلشمنٹ بھی کیا ظالم حسینہ ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔ سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ انتخاب عوام کا ہوتا ہے مگر حسن انتخاب اسٹیبلشمنٹ کا۔ میری مدد کیجئے۔ میں آئین میں آرٹیکل تلاش کررہا ہوں،جس کے تحت سیاستدان فوج سے مذاکرات کرسکتے ہیں اور یہ سول امور میں مداخلت بھی نہ کہلائے۔
آج اتوار ہے۔ ملک کی ایک اکائی میں فیصلے کا دن۔کیا آپ نے اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کو گلگت بلتستان کے غیور لوگوں کی جرأت اور بے خوفی کی کہانیاں سنائیں۔ انہوں نے کتنی قربانیاں دے کر اپنے علاقے کو آزاد کروایا۔ کس طرح ایک بڑی طاقت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ پہاڑوں کے بیٹے پہاڑوں کی طرح توانا اور ناقابل تسخیر۔ اس لیے انتخابی مہم میں وزیر اعظم، وفاقی وزراء دونوں بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ گلگت بلتستان کے دلوں پر دستک دینے پر مجبور۔ مگر کورونا کی عالمگیر وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا گیا۔ ماسک نہیں پہنے گئے۔ سماجی فاصلہ نہیں رکھا گیا۔ صاحبانِ اقتدار کے پیروکار بھی غیر ذمہ دار۔ عاشقا ن اقتدار کے جیالے متوالے بھی۔ اللہ اپنا کرم کرے۔ یہ اس پروردگار کا پاکستان پر فضل ہے کہ امریکہ ،بھارت، ایران ،برازیل کی طرح کورونا نے ہزاروں لاکھوں کو لقمہ اجل نہیں بنایا۔ لیکن پھر بھی بڑے بڑے لوگ ۔ سینئر ڈاکٹر ۔چیف جسٹس ۔ سیاستدان اس کی نذر ہوگئے۔
ریٹائرڈ صوبیدار اکرام نے آزاد جموں کشمیر کے ایک قصبے سے فون کیا۔ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ایک طرف پیرانہ سالی دوسری طرف مہنگائی۔ اپنی طویل عمر میں اتنی گرانی انہوں نے پہلے نہیں دیکھی۔ دونوں پارٹیوں کی باریوں اور لوٹ مار سے تنگ آکر انہوں نے بھی عمران خان کو اپنی تمنّائوں کا مرکز بنایا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں عمران خان اپنا کردار ادا کرسکے۔ مگر اس صبح وہ بہت ہی مایوس لگ رہے تھے۔ اور ڈر رہے تھے کہ اس کی حکومت تو جارہی ہے۔ پھر وہی لوگ آجائیں گے۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیںکہ کسی شخصیت سے جتنی توقعات باندھی جاتی ہیں اگر وہ پوری نہ ہوں تو اتنی ہی شدید مایوسی ہوتی ہے۔ آج کل یہی صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے۔ مہنگائی ختم کرنے کے دعوے اور وعدے کیے جارہے ہیں۔ مگر یہ کم بخت اوپر ہی جارہی ہے۔ ملک کی بڑی اکثریت کی آمدنی اور ضروری اخراجات میں فاصلہ بڑھ رہا ہے۔
نوید دی جارہی ہے کہ معیشت کے اشاریے مثبت ہیں۔ آبادی کی اکثریت تک اگر مثبت اشاریوں کے ثمرات نہ پہنچیں تو حکمرانوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مجھے تو اپنے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ بھی وحشت میں ڈال رہا ہے۔ 70کی دہائی سے قرضوں کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ میں کوئی ماہرِمعاشیات نہیں ہوں لیکن اعداد و شُمار میرے ارد گرد سانپوں کی طرح پھن اٹھائے کھڑے ہیں۔ ان سے کیسے نظر ہٹائوں۔ بتایا جارہا ہے کہ لاکھوں قربانیوں سے حاصل کیے گئے ملک پر 36ہزار ارب روپے کا قرضہ ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے پہلے دو سال میں گیارہ ہزار ارب کا اضافہ کیا ہے۔ مشرف حکومت نے 6½ہزار ارب روپے کا بوجھ چھوڑا تھا۔پی پی پی جاتے وقت اسے 13½ ہزار تک پہنچاگئی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) اس کو 25ہزار ارب تک لے گئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ مقروض افراد یا قومیں کبھی بھی سر اٹھاکر نہیں چل سکتیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ انہیں اپنی پوری زندگی یہ قرضے اتارتے ہی گزارنی پڑتی ہے۔ بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنے یا اپنے بچوں کے لیے نہیں کماتے بلکہ قرضے اتارنے کے لیے شب و روز محنت کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کا اپنا گزارہ کس مشکل سے ہوتا ہے۔ وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔
حیرت یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے۔ وہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر شادیانے بجاتی ہے۔ اسے اپنا کارنامہ سمجھتی ہے۔ آج کل آئی ایم ایف کا دبائو بڑھ رہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ غریبوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے خلاف ہے۔
میری گزارش صرف یہ ہے کہ کوئی سیاسی رہنما کوئی ذمہ دار ایک حتمی عرصہ تو طے کرے کہ پاکستان کب قرضوں سے آزاد ہوسکتا ہے یا ہم یہ سمجھ لیں کہ ہر نسل مقروض پیدا ہوگی۔ اور مرتے دم تک مقروض ہی رہے گی۔ لوگوں کو خبردار کردیا جائے کہ وہ بچے پیدا کریں گے تو قرض ادا کرنے کے لیے۔ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ قرض واپس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہم تو اس وقت قوم کی حیثیت سے بھی اور فرد کے طور پر بھی صرف قرض لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اعداد و شُمار بھی بتاتے ہیں کہ صرف 2004ایسا سال ہے۔ جب سب سے کم قرضہ 33172ملین ڈالر لیا گیا۔ 2002سے 2020کے درمیان 60642ملین ڈالر قرضے۔ اور 2020کی دوسری سہ ماہی میں 112858 ڈالر۔ جو اب تک کا سب سے زیادہ بوجھ ہے۔ اب قرضوں پر چڑھے سود کی ادائیگی ہمارے بجٹ کا سب سے بڑا حصّہ کھاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر قرضہ بڑھانے کے الزامات عائد کرکے خیال کرتی ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا۔ کسی پارٹی کے پاس قرضہ فری پاکستان کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اپنی ڈائمنڈ جوبلی پر ہم اور زیادہ مقروض ہوں گے۔
جس ملک میں 60فی صد نوجوان آبادی ہو ۔ لوگ جفاکش اور صابر ہوں۔ جہاں سمندر۔ پہاڑوں اور ریگ زاروں میں تیل۔ سونا۔ تانبا۔ قیمتی پتھر چھپے ہوں۔ جہاں موسم سازگار ہو۔ جہاں زمین زرخیز ہو۔ وہ قوم پہلے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لے۔ مقروض نسلیں پیدا کرتی رہے۔ اس کی سیاسی فوجی قیادت، اقتصادی ماہرین، بینکاروں، یونیورسٹیوں کے لیے مورخ کیا الفاظ استعمال کرے گا۔ کوئی شرم ،کوئی حیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔