17 نومبر ، 2020
اسلام آباد: سرینا عیسیٰ کیس، ایف بی آر تحقیقات میں کب، کہاں، کیا ہوا؟ منی ٹریل پر عدم اطمینان کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی گئی ہے اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے مشترکہ بینک اکاؤنٹ کی تحقیقات ہوں گی۔
ٹیکس حکام نے اعلیٰ عدلیہ کو بتایا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے لندن کی مہنگی جائیدادوں کے جو ذرائع بیان کیے ہیں وہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے کے بعد ایف بی آر نے اپنی حتمی رپورٹ جمع کروادی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 30 جولائی 2020 کے شوکاز نوٹس کے مطابق، سرینا عیسیٰ کے پاس مجموعی ٹیکس / قانونی ذرائع 30 جون، 2012 تک 94 لاکھ روپے تھے، یہ رقم پہلے ہی وہ استعمال کرچکی تھیں جو کہ 2013 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر ہے۔
لہذا ان کے پاس مذکورہ جائیداداوں کی خریداری کے ذرائع موجود نہیں ہیں جب کہ ذرعی آمدن کے منافع سے متعلق درخواست اور پھر اسے غیر ملکی اکاؤنٹ میں جمع کروانے سے متعلق کوئی ثبوت 2013 تک ان کی جانب سے جمع کروائی جانے والی ڈکلیئریشن میں نہیں ملتا۔
ایف بی آر کے سینئر افسران نے جیو نیوز کو بتایا ہے کہ وہ سرینا عیسیٰ کی آمدنی اور اکاؤنٹس کی تحقیقات کررہے ہیں جس کی وجہ 24 اگست کو ان کے اکاؤنٹ سے متعلق ملنے والی ایک بینک کی جانب سے موصول ہونے والی معلومات ہیں جس کے بعد سرینا عیسیٰ کو ان کے ای میل پر نوٹس بھیجا گیا تھا جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ ان کا ایم سی بی میں شوہر کے ساتھ بھی ایک مشترکہ اکاؤنٹ ہے جسے 2018 تک ڈکلیئر نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے 31 جنوری 2020 تک ان پراپرٹیز کو چھپائے رکھا۔ اس حوالے سے سرینا عیسیٰ کے گھریلو ذرائع نے بتایا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ٹیکس فائلر ہیں لہذا یہ کہانیاں نا بنائی جائیں۔
ٹیکس حکام نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ بھی بتایا کہ سرینا عیسیٰ نے اپنی زرعی زمین بھی 2018 میں ظاہر کی تھیں جب کہ 2012-13 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اس کا ذکر نہیں ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نا ہی ان کے پاس وسائل تھے اور نا ہی جائیدادوں کی خریداری کی منی ٹریل تھی، یہ شواہد فراہم کرنا ان کی ذمہ داری تھی جس میں وہ ناکام رہیں۔
ایف بی آر رپورٹ میں سرینا عیسیٰ کی جانب سے اٹھائے گئے قانونی اور تکنیکی اعتراضات پر بھی بات کی گئی ہے۔
پہلی بات سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر اسلام آباد کمشنر آفس کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تو اس کے لیے سپریم کورٹ کے 19 جون کے حکم نامے کے پیرا 4 کا حوالہ دیا گیا ہے۔
دوسری بات سرینا عیسیٰ نے دستاویزات کی نقول طلب کی تھیں جو ایف بی آر کے مطابق وہ اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے حاصل کرسکتی ہیں۔
تیسری بات سرینا عیسیٰ کا یہ کہنا کہ وہ اپنی غیر ملکی جائیدادیں 2018 سے قبل ڈکلیئر کرنے کی پابند نہیں تھیں تو ایف بی آر کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے مطابق ہر پاکستانی شہری اپنے ہرقسم کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہے جب کہ غیرملکی جائیدادوں کے لیے آرڈیننس میں خصوصی شق شامل ہے۔
چوتھی بات سرینا عیسیٰ نے غیرملکی ایکسچینج اکاؤنٹس سے متعلق استثنا کا دعویٰ کیا تو ایف بی آر کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر انہیں یہ استثناء حاصل نہیں تھا۔
پانچویں بات سرینا عیسیٰ نے 6 سال کی حد کی بات کی اور کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ان سے 6 سال پہلے کا کوئی ریکارڈ طلب نہیں کیا جاسکتا تو ایف بی آر کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس رولز 2002 کے تحت پراپرٹی انکم کے کچھ دستاویزات برقرار رکھے جاتے ہیں جب کہ ایف بی آر کی جانب سے جو ذرائع آمدن طلب کیے گئے تھے وہ انکم ٹیکس رولز،2002 کے رول 31(2) کے دائرے کار میں نہیں آتے۔
چھٹی بات سرینا عیسیٰ نے ترسیلات سے متعلق 12 دسمبر 2019 کا جو سرٹیفکیٹ فراہم کیا جو کہ تین غیرملکی جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع کے طور پر پیش کیا گیا تھا جب کہ یہ بچوں کی تعلیم اور روزمرہ اخراجات سے متعلق تھا نا کہ جائیدادوں کی خریداری سے متعلق تھا۔
ساتویں بات سرینا عیسیٰ نے کہا کہ سیکشن 111(2) (ii) ان کے کیس سے متعلق نہیں ہے۔ اس پر ایف بی آر کا کہنا تھا کہ 30 جولائی 2020 کے شوکازنوٹس میں انہوں نے پہلے ہی جواب دیا تھا یہ تینوں غیرملکی جائیدادیں 2019 میں سامنے آئیں۔
لہٰذا متعلقہ سال اس سے پچھلا سال یعنی 2018 ہی تھا۔ ایف بی آر رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متعدد نوٹسز اور درخواستوں کے باوجود سرینا عیسیٰ منی ٹریل فراہم کرنے میں ناکام رہیں جب کہ بینک ترسیلات فارم جس پر انہوں نے دستخط کیے، اس فارم میں صرف بچوں کی تعلیم اور روزمرہ اخراجات کو ہی مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق کسی بھی فارم پر انہوں نے بیرون ملک جائیدادوں کی خریداری کو ترسیلات کا مقصد نہیں بیان کیا اس سے واضح ہے کہ تینوں غیرملکی جائدادیں ان ذرائع سے حاصل نہیں کی گئیں جس کا سرینا عیسیٰ نے دعویٰ کیا ہے۔
نوٹ: یہ خبر 17 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔