14 دسمبر ، 2020
سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ مستردکردی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پی آئی اے سربراہ ارشد محمود ملک تعیناتی کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی، ادارے کو چلانے کیلئے پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے، ادارے پر اربوں روپے کا قرض بھی انتظامیہ کی وجہ سے ہے۔
چیف جسٹس نے پی آئی اے کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ مستردکردی اور ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنایا جائے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پی آئی اے تو کورونا سے پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، وفاقی وزیر ہوابازی نے پارلیمنٹ میں خود کہا پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ پہلی فرصت میں یورپ میں لینڈنگ پر عائد پابندیاں ہٹوائیں۔
دورانِ سماعت ایک موقع پر چیف جسٹس نے ارشد ملک کے وکیل نعیم بخاری سے استفسار کیاکہ وہ چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کا عہدہ رکھتے ہوئے بطور وکیل کیسے پیش ہوسکتے ہیں؟
اس پر نعیم بخاری نے جواب دیاکہ ان کے پاس یہ عہدہ اعزازی طورپرہے، وہ تنخواہ اور مراعات نہیں لے رہے جبکہ سابق چیئرمین کے پاس تین گاڑیاں تھیں، پاکستان بار کونسل سے وکالت کے معاملے پر رجوع کررکھا ہے۔
وکیل پی آئی اے سلمان اکرم راجا نے عدالت کے استفسارپربتایاکہ 141 پائلٹس کے لائسنس معطل، 15 منسوخ ہوئے جبکہ وکیل ارشد ملک، نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا پی آئی اے نے 480 ارب روپے کاقرض اداکرناہے۔
سپریم کورٹ نے پائلٹس کے جعلی لائسنس سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔