29 دسمبر ، 2020
عجیب سیاسی موسم ہے، سب بے بس ہیں، حکومت ڈیلیور کرنے میں بےبس لگتی ہے، اپوزیشن حکومت کو اُتار پھینکنے میں بےبس محسوس ہورہی ہے اور تیسرا فریق حکومت کو ڈکٹیٹ کرنے میں بےبس نظر آتا ہے۔ یوں یہ بھی بےبس، وہ بھی بےبس اور تیسرا بھی بےبس، اسی لیے یہ بےبسی کا موسم ہے۔
حکومت سے کچھ ہوتے نظر نہیں آتا، اپوزیشن سے کچھ بدل نہیں پا رہا اور ریفری کے بار بار ایڈوائس کے باوجود نہ تو پنجاب میں تبدیلی کی بات مانی گئی نہ وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں پر مشورہ مانا گیا۔
ایسا لگتا ہے کہ سیاست کے تینوں فریق کچھ کر نہیں پا رہے، بالکل ایسے ہی جب صدر زرداری کی صدارت کے تیسرے سال میں میمو گیٹ کے بعد سب فریق تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے اور طوہاً کرہاً وقت پورا کرتے رہے، اب بھی وہی صورتحال ہے، کسی کا بس نہیں چل رہا، اِس لیے بس یہ یونہی چل رہا ہے۔
نظام کچھ ایسا بنا ہوا ہے کہ حکومت کو کچھ ہوگا تو لازماً تیسرے فریق کو بھی زک پہنچے گی، اِسی لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ دو باتیں واضح طور پر بتا دی گئیں، وزیراعظم کے استعفیٰ کے لیے دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی الیکشن وقت سے پہلے ہوں گے، تیسرے فریق کی طرف سے اِن دو واضح شرائط کے ساتھ ڈائیلاگ کی بات کی گئی، ظاہر ہے کہ اپوزیشن اِن شرائط کے ساتھ ڈائیلاگ کے لئے کہاں تیار ہوگی؟
اپوزیشن تجربہ کار ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کئی تحریکوں اور کئی حکومتوں کا تجربہ کر چکے ہیں، اِس لیے اُن سے توقع یہی کرنی چاہیے کہ وہ کسی نادانی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور اپنی سیاسی چالوں کی منصوبہ بندی ایسے طریقے سے کریں گے جس سے اپوزیشن کو سیاسی فائدہ اور حکومت کو سیاسی نقصان ہو۔
اجتماعی استعفوں کی ٹائمنگ کے حوالے سے بھی یہی نکتہ زیر غور ہوگا کہ کیا استعفے مارچ سے پہلے دیے جائیں یا بعد میں دینے چاہئیں، پاکستان پیپلز پارٹی 1985کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ سے یہ سبق سیکھ چکی ہے کہ ہر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے، الیکشن کے بائیکاٹ سے آپ کے مخالفوں کو واک اوور مل جاتا ہے۔
1983ءکے بلدیاتی انتخابات اور 1985کے غیرجماعتی انتخابات میں واک اوور سے جیتنے والے بعد میں سیاسی منظر پر نمایاں ہو گئے، اِنہی میں میاں نواز شریف اور اُن کی پارٹی کے بیشتر اراکین تھے۔
دوسری طرف ن لیگ اقتدار سے بہت طویل عرصے سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے، اُس کے اراکینِ اسمبلی اور منتخب لوگ احتجاجی سیاست کے تقاضوں سے زیادہ شناسائی نہیں رکھتے، اِس لیے ن لیگ کو چاہیے کہ وہ احتجاجی سیاست کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے تجربات سے فائدہ ضرور اُٹھائے۔
اپوزیشن اجتماعی استعفے تبھی دے گی جب اُس کو یقین ہوگا کہ اُن کے استعفوں سے نظام مفلوج ہو جائے گا اور نئے الیکشن کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں رہے گا، لانگ مارچ کے پیچھے بھی یہی فلسفہ کارفرما ہوگا کہ اِس سے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جائے اور سیاسی تصادم کا ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں سیاسی کشیدگی کے حل کے لیے دباؤ پیدا ہو جائے، اپوزیشن اپنے اِن اقدامات کو فیصلہ کن نتیجے تک پہنچانے تک کی حکمت عملی لازماً ترتیب دے رہی ہوگی۔
دوسری طرف حکومت کی ممکنہ جوابی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح مارچ کو گزارا جائے، لانگ مارچ سے پہلے سینیٹ کا انتخاب ہو جائے، ہو سکتا ہے کہ حکومت مذاکرات کے لیے بھی کوئی سنجیدہ کارروائی کرے۔
حکومت کی سوچ یہ ہے کہ اگر سینیٹ کا الیکشن ہو گیا اور تحریک انصاف کی سینیٹ میں اکثریت آگئی تو اُسے قانون سازی میں آسانی پیدا ہو جائے گی، حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد اگلے دو سال میں کوئی بڑا سیاسی معرکہ درپیش نہیں ہوگا، اِس لیے حکومت کسی چیلنج کے بغیر اپنا وقت گزار لے گی۔
بظاہر سینیٹ انتخابات کے بعد ہی سے اگلے انتخابات کے لیے صف آرائی اور منصوبہ بندی شروع ہو جائے گی، حکومت کی بےبسی یہ ہے کہ اُن کے پاس کچھ ایسا نیا نہیں جس سے وہ اگلے دو تین سال لوگوں کو بہلائے رکھے یا مطمئن کر سکے۔
صحت کارڈ ایک واحد سیاسی حربہ ہو سکتا ہے جس کا کچھ سیاسی اثر ہو سکے وگرنہ حکومتی اقدامات میں تخلیقی پن اور نیا پن نہیں اور اگر یہ ایسا ہی رہا تو پھر تحریک انصاف عوامی اور سیاسی سطح پر کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکے گی اور یوں اُس کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ مضبوط ہوتے جائیں گے۔
پنجاب میں وزیراعلیٰ بزدار کا سکہ چل رہا ہے، چوہدری پرویز الٰہی بدستور اُن سے ناراض ہیں لیکن وزیراعلیٰ بزدار کے مخلص پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشیددن رات صحت کارڈ کی کامیابی کے لیے محنت کر رہے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ وہ اگلے چند ماہ میں پنجاب کے دو سے تین ڈویژنوں کے لوگوں کو صحت کارڈ دے کر انقلابی اقدام اٹھا لیں گے۔
گو حکومت اور اپوزیشن دونوں سسٹم کے فنا اور بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں، اپوزیشن کو یقین ہے کہ یہ نظام چل ہی نہیں سکتا، اَسے 5سال چلانا ناممکن ہے، دوسری طرف حکومت کا خیال ہے کہ وہ اِسے 5سال چلائیں گے اور اگلا الیکشن پوری تیاری اور تام جھام سے لڑیں گے، اسی لیے تو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ضلع ساہیوال سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کا انتخاب کر لیا ہے جہاں سے وہ الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اِس حوالے سے اُنہوں نے وزیراعظم عمران خان اور پارٹی قیادت کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے، ضلع ساہیوال میں زیادہ تر نشستیں ن لیگ نے جیتی ہیں اِس لیے تحریک انصاف نے بھی بخوشی چوہدری سرور کو اجازت دے دی ہے۔
لانگ مارچ اور استعفوں سے پہلے مذاکرات کا امکان بڑھ رہا ہے، تیسرا فریق چاہے گا کہ ملک میں گڑ بڑ نہ ہو، لانگ مارچ ہوا تو نہ سیاسی استحکام رہے گا اور نہ معاشی استحکام، اجتماعی استعفے ہوئے تو نظام ہی معطل ہو کر رہ جائے گا، ضمنی انتخابات کروانا ناممکن ہوں گے۔
مذاکرات کی پہلی جھلک سینیٹر محمد علی درانی کی شہباز شریف سے جیل میں ملاقات میں نظر آئی، درانی صاحب گھاگ سیاست کار ہیں، وہ ’’کچے‘‘ پر پاؤں نہیں رکھتے، حالات اور امکان کا جائزہ لیے بغیر اُنہوں نے یہ ٹاسک اپنے ذمہ لیا ہوگا، اِس لیے اِس بات کا پورا امکان ہے کہ تیسرے فریق کی طرف سے اِن مذاکرات کی اشیر باد دی گئی ہو۔
اگر اِس مفروضے کو مان لیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ مذاکرات شہباز شریف سے ہوں گے اور ظاہر ہے مذاکرات کرنے کے لیے اُنہیں رہا کرنا ہوگا، گویا آنے والے دو مہینوں میں تبدیلی ضرور آئے گی، یہ تبدیلی اگر حکومت کی نہ ہوئی تو پالیسی کی ہوگی۔
حزبِ مخالف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی پہلی اینٹ رکھی جا چکی ہے لیکن اِس کی بنیاد بھی لازماً لانگ مارچ سے فوراً پہلے یا اُس کے ساتھ ہی رکھی جائے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔