Time 19 جنوری ، 2021
بلاگ

اڑھائی سال بعد؟

فوٹو: فائل 

فرض کر لیں کہ موجودہ حکومت اپنی 5 سالہ مدت مکمل کر لے گی، اُس کے خلاف پی ڈی ایم، تیسری طاقت اور تمام در پردہ یا کھلی سازشیں ناکام رہیں گی، عمران خان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی نہیں آئے گی، اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو اڑھائی سال بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ہمارا اگلے دو تین سال کا معاشی، سیاسی اور سماجی وژن کیا ہے؟ 

ہماری شرح نمو جو منفی کے قریب ہےاڑھائی سال بعد کہاں ہو گی؟ کون سی نئی موٹر ویز بنیں گی؟ کون سے بجلی کے نئے کارخانے لگیں گے؟ پاکستان کا نظامِ تعلیم کہاں کھڑا ہوگا؟ پاکستان کی زراعت میں کتنی بہتری آچکی ہوگی؟ کتنے بیروزگار نوکریاں حاصل کر چکے ہوں گے؟ کتنے بےگھر گھر حاصل کر چکے ہوں گے؟ کتنے غریب خطِ غربت سے اوپر آ چکے ہوں گے؟

کتنے مفلس مہنگائی کے عذاب سے بچ سکیں گے؟ ان سوالوں کے جتنے بھی مثبت جواب دینے کی کوشش کی جائے، سچ تو یہ ہے کہ اڑھائی سال بعد کی تصویر دھندلی اور غیر واضح ہے، یوں ہمارا مستقبل روشن نہیں بلکہ تاریک نظر آ رہا ہے۔

کسی حکومت یا لیڈر کے ساتھ امید کا وابستہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مستقبل کی نوید لے کر آئے تو قیامِ پاکستان کے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔

ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کی امید کا نعرہ لے کر آئے اور اِس امید کے ذریعے نہ صرف اقتدار تک پہنچے بلکہ اپنے پانچ سالہ دور میں اُنہوں نے اپنے وژن کو عملی شکل بھی دی، عمران خان نئے پاکستان کی امید دلا کر اقتدار میں آئے، ان کا نعرہ تھا کہ وہ کرپشن فری پاکستان بنائیں گے جس میں لوگ باہر سے نوکریاں لینے آئیں گے۔

بیرون ملک پڑی ہوئی اربوں ڈالر کی کالی دولت کو واپس لاکر ملک کو امیر کر دیں گے، قرض اتار دیں گے، بیروز گاروں کو روزگار دیں گے، بےگھروں کو گھر بنا کر دیں گے، اب جبکہ اُن کی حکومت کی آدھی میعاد ختم ہو چکی ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ اڑھائی سال میں اُنہوں نے جو کچھ کیا ہے، اُس سے کتنی امید پیدا ہوئی ہے اور کتنی امیدیں مر گئی ہیں؟ حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو حکومت کی اب تک کی کارکردگی دیکھ کر بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نہ ہی اپنے اہداف پورے کر سکے گی اور نہ ہی اپنے وعدے پورے کر سکے گی۔

جن لوگوں کو اِس حکومت سے امیدیں تھیں، وہ آہستہ آہستہ مایوس ہو رہے ہیں اور جب پانچ سال پورے ہوں گے تو وہ اِس حکومت کا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

عمران حکومت کے پہلے اڑھائی سال کرپشن کے خلاف زور دار مہم میں صرف ہوئے، بڑے بڑے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو جیلوں میں ڈالا گیا، نہ کسی سے رو رعایت کی گئی اور نہ کسی کے رعب میں آئے۔

بظاہر کرپشن کے خلاف یہ مہم سیاسی طور پر بڑی کامیاب رہی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے اس کے حامیوں نے داد کے ڈونگرے برسائے، عمران خان کو اِس حوالے سے اخلاقی اور سیاسی برتری بھی رہی لیکن اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو اِس ساری مہم سے نہ تو کوئی مالی فائدہ ہوا، نہ قومی سطح پر کرپشن کا خاتمہ ہو سکا۔ مہم تو زور دار رہی مگر اِس کا معاشرے پر اثر بالکل نہیں پڑا۔ تھانے کچہری اور پٹواری کا استبداد اور کرپشن اب بھی جاری و ساری ہے۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ حکومت باہر سے اِس قدر بلیک منی واپس لے آئے گی کہ ملک کے وارے نیارے ہو جائیں گے لیکن تاحال اِس حوالے سے حکومت ایک پائی بھی واپس نہیں لاسکی، نہ ہی معاشرے میں پھیلی کرپشن اور بدانتظامی کو دور کر سکی ہے۔

نیا پاکستان دراصل پاکستان کی مڈل کلاس کے مستقبل کا وژن تھا جسے عمران خان نے اپنا لیا۔ اسی ویژن میں میرٹ، پروٹوکول سے ماورا زندگی، انصاف اور کرپشن فری پاکستان شامل تھے۔

پڑھی لکھی مڈل کلاس اور کارپوریٹ کلاس کا خواب یہ تھا کہ مراعات یافتہ طبقے نے اُن کی ترقی کے جو راستے مسدود کر رکھے ہیں وہ کھلوائے جائیں، افسوس یہ ہے کہ اڑھائی سال گزرنے کے باوجود مڈل کلاس کی آرزئوں اور آدرشوں کو پورا کرنے کی طرف سفر بھی شروع نہیں کیا گیا۔

یہ مڈل کلاس ابھی تک امید لگائے بیٹھی ہے کہ تحریک انصاف بالآخر ان کی امیدوں کو پورا کرکے ایک ایسا پاکستان بنائے گی جس میں سب کو برابری کے مواقع ملیں، سب کو انصاف ملے اور کوئی کسی دوسرے کا استحصال نہ کر سکے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے اڑھائی سال میں مڈل کلاس کے وژن کی کم از کم بنیاد تو ڈالی جاتی اور پھر اگلے اڑھائی سال میں اس خواب کی تکمیل کی جاتی۔ افسوس صد افسوس کہ ابھی تک اس وژن پر ابتدائی عمل بھی نہیں ہو سکا۔

اڑھائی سالہ مدت کی تکمیل پر سوچنا یہ ہے کہ کیا حکومت پانچ سال پورے ہونے پر پاکستان کو آج سے آگے لے جانے میں کامیاب ہو جائے گی؟ اگر تو اقوال پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان اڑھائی سال بعد جنتِ ارضی کی مانند ہوگا جہاں نہ کرپشن ہوگی اور نہ بدانتظامی، لاکھوں مکان بےگھروں کو دیے جا چکے ہوں گے، بیروزگاری اور پاکستان کی تمام معاشی مشکلات ختم ہو چکی ہوں گی لیکن اگر افعال پر آئیں تو ایسا لگتا ہے کہ پانچ سالہ مدت مکمل ہونے پر بھی پاکستان ویسا ہی ہو گا جیسا آج ہے۔

ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہے ہوں گے یا اُسی جگہ کھڑے ہوں گے۔ اگر بدقسمتی سے ایسا ہوا تو پاکستان کا پانچ سالہ سفر تو رائیگاں جائے گا ہی، مڈل کلاس اور یوتھ کے خواب بھی خاک میں مل جائیں گے اور یوں امید ٹوٹ جائے گی۔

موجودہ حکومت کی کارکردگی سے قطع نظر وہ اپنے بیانیے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ عمران خان کے فین یہ سمجھتے ہیں کہ اسے کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا، مافیاز اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ چور، سیاست دان اور ڈاکو لیڈر پھر سے اقتدار میں آنے کے لئے سازشیں کر رہے ہیں۔

اِن پرستاروں کی نظر میں عمران خان دو اڑھائی سال میں ملک ٹھیک نہیں کر سکتا، اُس کو کم از کم دو ٹرمز مکمل طور پر ملیں تو تب ہی وہ صحیح اور مکمل تبدیلی لاکر نیا پاکستان بنا سکے گا۔ عمران خان کے سیاسی مخالف اور بزنس مڈل کلاس کی اکثریت بالکل مختلف سوچ کی حامل ہے، اُن کے خیال میں عمران خان کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی اور بحالی کا امکان نہیں ہے۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس حکومت کا جلد از جلد خاتمہ ہی اِس ملک کے لئے بہتر راستہ ہے۔ آدھی مدت مکمل ہونے کے وقت کارکردگی اور اہلیت کا فیصلہ نہ تو پرستاروں نے کرنا ہے اور نہ سیاسی مخالفوں نے۔

اعداد و شمار اور حالات خود سچ بتا دیتے ہیں، سچ چھپ نہیں سکتا وہ بہرحال سامنے آکر رہتا ہے۔

میری ذاتی رائے بھی یہی ہے اور جمہوری راستہ بھی یہی ہے کہ موجودہ حکومت اپنے مینڈیٹ کے مطابق پانچ سالہ مدت پوری کرے لیکن اس موقع پر پارٹی لیڈر شپ کو یہ جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ آدھی مدت میں انہوں نے اپنے منشور کے مطابق کون سے وعدے پورے کئے ہیں؟

بہتر ہو کہ عمران خان سینئر پارٹی رہنمائوں کی ایک کمیٹی بنائیں جو حکومت کو منشور کے مطابق چلانے پر مشورے دے، دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں، حکومت کی سمت درست رکھنے اور کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے اِس طرح کی کمیٹیاں بناتی ہیں۔

تحریک انصاف کو اپنی آدھی مدت مکمل ہونے کے بعد اپنی سیاسی اور معاشی کارکردگی کا جائزہ لینے کا میکنزم ضرور بنانا چاہیے۔

تحریک انصاف کی ناکامی صرف عمران خان کی ناکامی نہیں، پوری مڈل کلاس، کارپوریٹ کلاس، اوورسیز پاکستانیوں اور تنخواہ داروں کی ناکامی ہوگی۔ خواب صرف عمران خان کا نہیں ٹوٹے گا اِن سب طبقات کا مستقبل پھر سے دائو پر لگ جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔