20 فروری ، 2021
حقائق کو چھوڑیے فرض کر لیتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، یہ تصور بھی کر لیتے ہیں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اگلے دو سال ایک ہی صفحے پر ر ہیں گےاور اپوزیشن کے واویلے، تحریک، لانگ مارچ یا جلسے جلوسوں سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
یہ بھی سوچ لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی اسی طرح 2023ءتک حکومت کرتی رہے گی، معیشت کو تھوڑا بہت سنبھالا مل جائے گا برآمدات کچھ بہتر ہو جائیں گی مگر مستقبل قریب میں کوئی بڑا معاشی انقلاب نہیں آنے والا، سو 2023ء کا الیکشن کم و بیش آج ہی کے معاشی اور سماجی حالات میں ہوگا۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ 2023ء میں جب پی ٹی آئی 5سال بعد الیکشن میں اترے گی تو کیا کارکردگی لے کر پیش ہو گی؟ ماضی کی انتخابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پوری تاریخ میں جب بھی کسی سیاسی حکومت نے وفاقی انتخابات کروائے ہیں وہ دوبارہ سے جیت کر حکومت نہیں بنا سکی۔
1977ء میں بھٹو صاحب کی پارٹی الیکشن تو جیت گئی مگر دھاندلی کے الزامات پر تحریک چلی اور پھر مارشل لا کے نتیجے میں انہیں رخصت ہونا پڑا۔ محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو اپنا مینڈیٹ پورا کرنے کا موقع ہی نہ ملا، وہ پہلے ہی رخصت کر دیے گئے۔
آصف علی زرداری کو 2013ء میں موقع ملا کہ وہ اپنا پانچ سالہ مینڈیٹ پورا کرکے نئے الیکشن کے لیے جائیں تو وہ بری طرح ناکام ہوئے، اس سے پہلے ق لیگ بھی پانچ سالہ مدت کے بعد الیکشن میں ناکام ہی ٹھہری، ن لیگ نے 5سال پورے کئے انتخابات 2018ء میں گئے تو تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن گئی۔ غرضیکہ ماضی میں کسی بھی برسراقتدار پارٹی کے دوبارہ انتخابات جیتنے کی مثال موجود نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے نہ موٹر ویز اور ہائی ویز ہیں اور نہ بجلی یا دوسرے کارخانے، نہ کوئی لمبے چوڑے ترقیاتی منصوبے ہیں اور نہ پانی اور گیس گھر گھر پہنچانے کی کوئی داستان۔
آ جا کر یہی کہا جائے گا کہ ماضی کے قرضے ادا کئے، خراب معیشت کو ٹھیک کیا اور ملک کو سیدھے راستے پر ڈال دیا ہے، اس بیانیے پر لوگ کس حد تک یقین کریں گے اور کیا اس وعدے پر دوبارہ اعتماد کا ووٹ دیں گے کہ وہ بےروزگاروں کو روزگار دیں گے، 50لاکھ گھر بنا کر دیں گے اور ایسا ماحول پیدا کریں گے کہ باہر سے آ کر لوگ پاکستان میں نوکری کریں گے۔
بیرون ملک پڑے اربوں روپے کے کالے دھن کو واپس لا کر ملک کا سارا قرض اتار دیں گے۔ نعرے، وعدے اور پھر ان پر عملدرآمد نہ کرنا تحریک انصاف کے لیے مشکل کا باعث بنے گا۔
اڑھائی سال گزرنے کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ پنجاب کی سوچ تبدیل ہو گئی ہے۔ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیتی تھی، راولپنڈی اور فیصل آباد ڈویژن میں ن لیگ کی کارکردگی خراب رہی۔
راولپنڈی میں تو یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی نظریاتی لہر نے نون لیگ کو مستقل طور پر دبا دیا ہے لیکن فیصل آباد میں ابھی کشمکش جاری ہے اور ہو سکتا ہے کہ ن لیگ پھر سے سر اٹھائے اور 2023ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا صفایا کر دے کیونکہ فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے جیتنے والے ٹکٹ ہولڈرز بشمول راجہ ریاض، شیر وسیر وغیرہ سب ناراض اور دل گرفتہ ہیں۔
پی ٹی آئی کے ہمدرد لاہور جلسے کی ناکامی کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ن لیگ کا ووٹر مایوس ہے، اسے ن لیگ کی کرپشن کے الزامات کا شافی جواب نہیں مل رہا، اس لیے وہ غیر متحرک اور چپ ہے اور اگر صورتحال ایسے ہی رہی تو یہ ووٹر اپنی رائے بدل سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حقیقت احوال یہ ہے کہ ن لیگ کا مڈل کلاس کاروباری ووٹر اپنی سیاسی ہمدردی کا اظہار صرف ووٹ کی پرچی سے کرتا ہے۔
وہ اپنے کاروباری اور دنیاوی معاملات کو سیاست کی وجہ سے خراب کرنے کا قائل نہیں ہے۔ وہ جلسے جلوس یا احتجاج کے لیے اپنی دکان یا کاروبار بند کرنے کو تیار نہیں۔
ن لیگ کے ووٹر کا یہ پیٹرن آج سے نہیں شروع سے ہے، وہ صرف الیکشن ڈے پر نہا دھو کر تیار ہو کر ووٹ ڈالتے ہیں، وہ سیاست میں اپنا اتنا ہی حصہ ضروری خیال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لاہور اور گوجرانوالہ میں اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود ن لیگ کے احتجاجی جلسے بہت بڑے نہیں ہو پاتے۔
اب تک جتنے سروے آئے ہیں یا پھر جو اندازہ ہوتا ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آج پنجاب میں الیکشن ہوں اور ان میں غیرجانبداری یقینی بنائی جائے تو اب بھی مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اگر پی ٹی آئی فلاحی منصوبوں یا نئے پروگرامز میں سبقت نہیں لیتی، اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرتی تو پھر 2023 کے الیکشن میں اس کے جیتنے یا زیادہ سیٹیں لینے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
ماضی میں بھی کوئی سیاسی حکومت 5سال پورے کرنے کے بعد دوبارہ منتخب نہیں ہوئی، اس بار بھی اس کا امکان کم ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی ابھی سے منصوبہ بندی شروع کرے اگر اس کی پٹاری میں عوام کو دینے کے لیے کچھ ہے تو اس کا یہی وقت ہے۔
پی ٹی آئی کا بیانیہ دراصل تنخواہ دار اور کارپوریٹ مڈل کلاس کا بیانیہ تھا جو میرٹ، ٹیکس دہندگی اور قانون کی پابندی پر مشتمل تھا۔ اس بیانیے میں بزنس مڈل کلاس کے پاس دولت کے انبار ہونے اور ان کی لوٹ مار کے خلاف تعصب مخفی تھا چنانچہ ججوں، جرنیلوں اور دوسرے تنخواہ دار طبقات کا یہ بیانیہ بزنس کلاس کے نمائندگان کو انجام تک پہنچا کے رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیانیہ اب کمزور ہو گیا ہے۔
دوسری طرف بزنس مڈل کلاس کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ بیانیہ بالآخر بزنس کے لیے منفی ثابت ہو چکا ہے اور جب تک یہ حکومت موجود ہے بزنس کلاس کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
پی ٹی آئی اور دوسری جماعتوں کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا ہے، آج انتہائی آسانی سے یہ پشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگلے دس سال میں پاکستان کی ریاست مکمل طور پر بدل جائے گی۔
نئے چہرے اور نئے نام سامنے آ جائیں گے، انسانی زندگی کی حدود میں میری زندگی بھی محدود ہے اور اہل سیاست کی زندگی بھی۔ عمران خان 68سال کے ہیں اور نواز شریف 71سال کے۔ 2023ء کے الیکشن میں عمران خان 70سال کے ہوں گے اور نواز شریف 72سال کے، دونوں لیڈروں نے اپنی پارٹی کے اندر کوئی ایسا میکنزم نہیں بنایا جو ایک مستقل بندوبست ہو اور ان کی عدم موجودگی میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
اس لیے ہم ہوں نہ ہوں اگلے آٹھ نو سال میں نئے سیاسی چیلنج ہوں گے۔ نئے سیاسی لیڈر ہوں گے۔ نئے سیاسی بیانیے ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کو چلانے کے لیے پہلے سے بہتر اور اچھے پروگرام اور منشور بھی سامنے آئیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ 2023ء کا الیکشن جو کہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہو گا اس فیصلہ کن جنگ کے بعد سیاست نیا رخ اختیار کرے گی۔
پیپلز پارٹی 2023ء میں سندھ سے باہر نکل کر پنجاب میں بھرپور سیاست کرتے دکھائی نہیں دیتی۔ فرض کریں کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحادشکل اختیار کر لیتا ہے اور 2023ء کے الیکشن میں ساری جماعتیں مل کر پی ٹی آئی کے مقابلے میں اترتی ہیں تو پھر یہ معرکۃ الآرا انتخاب ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔