08 مارچ ، 2021
وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدل جاتے ہیں۔ یہ مارچ 2008کے آخری دن تھے۔ یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے 18ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
ان کی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے وزرا نے اپنے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر حلف اٹھایا تھا کیونکہ حلف لینے والی شخصیت کا نام پرویز مشرف تھا۔ گیلانی صاحب کے وزیراعظم بننے کے کچھ دن بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مجھے کہا کہ میانوالی میں نمل کالج کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے اور اب اس کا افتتاح کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم میں تم نے ہمیشہ حصہ لیا، اب ہم نمل کالج کیلئے بھی آپ سے ایک کام لینا چاہتے ہیں۔ میں نے بغیر کچھ پوچھے ہی اپنی خدمات پیش کر دیں۔ خان صاحب نے کہا کہ ہم نمل کالج میں ایک بہت بڑی افتتاحی تقریب کا اہتمام کریں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس تقریب کی میزبانی کریں۔
میں فوراً راضی ہو گیا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی، عمران خان نے کہا کہ احسن اقبال وفاقی وزیر تعلیم بن چکے ہیں، انہیں بھی اس تقریب میں بلانا ہے۔ میں نے کہا کہ احسن اقبال کو اِس تقریب میں لانا میری ذمہ داری ہے۔ یہ سن کر خان صاحب بہت خوش ہوئے، دوسرے ہی لمحے گویا ہوئے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی نمل کالج کی افتتاحی تقریب میں آ جائیں تو بہت اچھا ہوگا۔
میں نے کچھ سوچا اور عمران خان سے کہا کہ اس مقصد کیلئے آپ کو ایک تحریری دعوت نامہ تیار کرنا ہو گا، یہ دعوت نامہ میں وزیراعظم تک پہنچا دوں گا اور احسن اقبال سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی وزیراعظم کو نمل کالج میں لانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ بہرحال نمل کالج کی انتظامیہ نے ایک تحریری دعوت نامہ میرے حوالے کیا۔
احسن اقبال نے بھی وزیراعظم سے کہا کہ نمل کالج ایک اچھا تعلیمی منصوبہ ہے، آپ کو اس منصوبے کے افتتاح کیلئے وقت ضرور نکالنا چاہئے۔ آخر کار وزیراعظم نے ہاں کر دی اور نمل کالج کے افتتاح کی تاریخ وزیراعظم کی مصروفیات کو سامنے رکھ کر طے کی گئی۔ 27اپریل 2008کو نمل کالج کی افتتاحی تقریب ہوئی جس میں یوسف رضا گیلانی اور احسن اقبال خصوصی طور پر اسلام آباد سے تشریف لائے۔
میں نے بطور میزبان دونوں کا بار بار شکریہ ادا کیا، اس دن عمران خان بھی عاجزی و انکساری کا مجسمہ بنے ہوئے تھے۔ وہ بار بار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کہتے کہ میں آپ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔ گیلانی صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر اور گردن جھکا کر کہتے کہ اس کالج کیلئے کوئی بھی خدمت ہو میں حاضر ہوں، میں دونوں کی عاجزی پر قربان ہوتا رہا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج مجھے 13 سال پرانی باتیں کیوں یاد آ رہی ہیں؟ یہ باتیں یاد آنے کی وجہ چھ مارچ 2021 کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پارلیمینٹ میں کی جانے والی تقریر ہے۔ اس دن عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا۔ اعتماد کا ووٹ لینے کی وجہ یہ تھی کہ 3 مارچ کو سینیٹ کے الیکشن میں عمران خان کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی نے5ووٹوں سے شکست دے دی۔
عمران خان اس شکست کو ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ قرار دے کر پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر سیخ پا ہوئے اور پھر 6مارچ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے انہوں نے قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو پاکستان کی تاریخ کا کرپٹ ترین انسان قرار دیا۔
نجانے وہ یہ کیوں بھول گئے کہ عبدالحفیظ شیخ اسی کرپٹ ترین انسان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ اگر وزیراعظم کرپٹ تھا تو اس کا وزیر خزانہ ایماندار کیسے ہو گیا؟ آج کل عمران خان کی سیاست یہ ہے کہ جو ان کے ساتھ ہے وہ ایماندار ہے جو ان کے ساتھ نہیں وہ کرپٹ ہے۔ جس وقت وہ قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر رہے تھے عین اسی وقت قومی اسمبلی کے باہر تحریک انصاف کے کارکن اور حامی اسی احسن اقبال پر جوتے برسا رہے تھے جو 13سال قبل نمل کالج کی افتتاحی تقریب میں میرے توسط سے مدعو کئے گئے تھے۔
آج کی تحریک انصاف ایک برسر اقتدار پارٹی ہے۔ اس پارٹی کو وہی مقام حاصل ہے جو جنرل ایوب خان کے زمانے میں مسلم لیگ کنونشن اور جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں مسلم لیگ (ق) کو حاصل تھا۔ اس جماعت کے اکثر حامیوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ 2008 میں عمران خان پارلیمینٹ کے رکن نہیں تھے۔ یوسف رضا گیلانی یا احسن اقبال کو ان کے ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ دونوں نیک نیتی سے نمل کالج کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے۔
آج یہ دونوں کرپٹ ہیں کیونکہ عمران خان وزیراعظم ہے اور یہ دونوں اپوزیشن میں ہیں۔ تحریک انصاف والوں نے احسن اقبال کو جوتا مارا، مصدق ملک اور شاہد خاقان عباسی کو مکے اور ٹھڈے مارے اور مریم اورنگزیب کو دھکے دیے۔ تحریک انصاف نے یہ جوتے، مکے، ٹھڈے اور دھکے اپوزیشن کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو مارے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری نہ کیا جائے کیونکہ ایک وڈیو میں ان کا برخوردار علی حیدر گیلانی حکمران جماعت کے ارکانِ اسمبلی کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتا رہا تھا۔
حکمران جماعت کے یہ چاروں ارکان خود اعتراف کر چکے کہ وہ علی حیدر گیلانی سے ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سیکھ رہے تھے۔ ان چاروں نے6مارچ کو عمران خان کو ووٹ دیا۔ ووٹ دینے کے بعد یہ چاروں عمران خان کو ملے اور میڈیا کے سامنے مان بھی گئے، ہم علی حیدر گیلانی کو ملے تھے، علی حیدر گیلانی غلط ہے تو یہ چاروں صحیح کیسے ہو گئے؟
عمران خان کہتے ہیں سینیٹ کے الیکشن میں انہیں ہارس ٹریڈنگ کا سامنا تھا۔ ہارس ٹریڈنگ اتنی بری ہے تو آپ نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار کیوں بنایا؟ ان کے پاس تو سینیٹ میں اکثریت نہیں ہے۔ وہ چیئرمین بنیں گے تو صرف ہارس ٹریڈنگ سے بنیں گے۔
اگر ہارس ٹریڈنگ گیلانی کرے تو غلط اور اگر عمران خان کا حمایت یافتہ امیدوار کرے تو صحیح؟ سچی بات یہ ہے کہ اگر گیلانی ہارس ٹریڈنگ سے جیتے تو سنجرانی بھی ہارس ٹریڈنگ سے جیتیں گے اور اگر سنجرانی جیت گئے تو پھر یوسف رضا گیلانی اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔