Time 15 مارچ ، 2021
بلاگ

ہمارا بروٹس کون ہے؟

فائل:فوٹو

15مارچ وہ دن ہے جب سینیٹ کے فلور پر ایک حکمران کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کا پاکستان کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں لیکن 12مارچ 2021کو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے دوران جو واقعات پیش آئے وہ مجھے بار بار سینیٹ میں قتل ہونے والے ایک حکمران کی یاد دلا رہے تھے۔

 اس حکمران کا نام جولیس سیزر تھا جو مملکتِ روما کا سب سے طاقتور انسان تھا لیکن اسے سینیٹ کے اجلاس کے دوران اس کے اپنے ہی دوست بروٹس نے ساتھی سینیٹروں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا۔ خون میں لت پت سیزر نے جب اپنے دوست بروٹس کو بھی وار کرتے دیکھا تو اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’بروٹس کیا تم بھی؟‘‘ بہت سال پہلے میں نے جولیس سیزر کے یہ الفاظ شیکسپیئر کے ڈرامے میں پڑھے تھے۔ ان چند الفاظ نے بروٹس کو بےوفائی کی علامت بنا دیا۔

 بروٹس اپنے دوست جولیس سیزر کو قتل کرنے کے بعد ایک عوامی اجتماع میں پہنچا اور اس نے اپنی بےوفائی کو حب الوطنی کے پردے میں چھپانے کیلئے کہا ’’میں سیزر سے کم محبت نہیں کرتا لیکن میں روم سے زیادہ محبت کرتا ہوں‘‘۔ عوام نے بروٹس کی تقریر سے متاثر ہو کر مقتول حکمران کیخلاف نعرے لگانا شروع کر دیے۔

 اس موقع پر سیزر کا ایک ہمدرد سینیٹر مارک انتونی سامنے آیا۔ اس نے عوام کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ میں سیزر کو دفن کرنے آیا ہوں، اسکی تعریف کرنے نہیں آیا، بروٹس صاحب کہتے ہیں کہ سیزر ایک جاہ طلب انسان تھا لیکن میں نے دیکھا کہ جب عوام روتے تھے تو سیزر بھی ان کے ساتھ روتا تھا، ایک جاہ طلب تو بڑا سنگدل ہوتا ہے پھر سیزر اپنے عوام کے ساتھ کیوں رویا؟ لیکن بروٹس صاحب صحیح کہتے ہیں کیونکہ وہ ایک قابلِ عزت انسان ہیں۔

 مارک انتونی نے ایک بپھرے ہوئے مجمعے کو آہستہ آہستہ اپنے الفاظ کے حصار میں لیکر بروٹس کیلئے بار بار قابلِ عزت کا لفظ طنزیہ انداز میں استعمال کیا اور تھوڑی ہی دیر میں یہ عوام بروٹس کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ مملکتِ روما حضرت مسیح علیہ اسلام کی پیدائش سے قبل قائم ہوئی اور اﷲ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی ولادت مبارک سے قبل زوال پذیر ہو گئی۔

 سینیٹ کے اجلاس میں سیزر کے قتل کا واقعہ 15مارچ 44 قبل ازمسیح کا ہے۔ سیزر کے خلاف سازش کرنے والے سینیٹرز کی تعداد 60 تھی اور بروٹس سمیت دیگر سینیٹرز نے سیزر کو 23 زخم لگائے۔ مارک انتونی تھوڑی سی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جولیس سیزر کی لاش پر کھڑے ہو کر سچ نہ بولتا تو آج بروٹس ہیرو اور سیزر ولن ہوتا۔

 12 مارچ کو پاکستان کی سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی کے بعد جب یہ اعلان کیا گیا کہ اکثریتی اتحاد کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے7 ووٹ مسترد ہو گئے اور صادق سنجرانی 6 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے تو میں سوچ رہا تھا کہ گیلانی صاحب کے اصل ووٹ تو 51تھے ان کے ووٹ 42 کیسے رہ گئے؟ ان کا بروٹس کون ہے؟چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ختم ہوا اور ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن ہوا۔ اب کی دفعہ اکثریتی اتحاد کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کے ووٹ 44 اور ان کے مدمقابل مرزا آفریدی کے ووٹ 54 نکلے۔ کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا جس کا مطلب تھا کہ اپوزیشن اتحاد کے 7 سینیٹرز نے مولانا حیدری کے ساتھ بےوفائی کی۔ 

میں ایک دفعہ پھر سوچنے لگا کہ مولانا حیدری کے بروٹس کون کون ہیں لیکن افسوس کہ سیکرٹ بیلٹ کی وجہ سے کسی بروٹس کا سراغ لگانا ممکن نہیں تھا۔ 3 مارچ کو اسی سیکرٹ بیلٹ کے جادو سے یوسف رضا گیلانی جیت گئے تھے اور اکثریتی اتحاد کے امیدوار حفیظ شیخ ہار گئے تھے۔ 3 مارچ کو یوسف رضا گیلانی کی فتح کو حق اور سچ کی فتح قرار دیا گیا اور 12مارچ کو ان کی شکست دھاندلی کا نتیجہ قرار پائی۔ اپوزیشن نے گیلانی کے 7 ووٹ مسترد کرنے کا معاملہ عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ان 7 ووٹوں میں گیلانی کے نام کے اوپر مہر لگائی تھی، خانے کے باہر مہر نہیں لگائی گئی تھی۔

کچھ صاحبانِ علم و دانش کا یہ خیال ہے کہ 3مارچ کو گیلانی کو جتوا کر عمران خان کو جھٹکا دیا گیا اور 12مارچ کو گیلانی کو ہروا کر اپوزیشن کو جھٹکا دیا گیا۔ ہمارے صاحبانِ علم و دانش اب جھٹکا دینے والوں کا نام لینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیونکہ ان کے خیال میں عوام بہت سمجھ دار ہیں، وہ سب جانتے ہیں کہ ایسے جھٹکے وہی دیتے ہیں جو سیاسی جماعتوں یا سیاستدانوں کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ناچیز اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔ 

3 مارچ کو سینیٹ کے الیکشن میں حکومت اور ریاست نے حفیظ شیخ کو جتوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس زور کو توڑنے کیلئے سابق صدر آصف علی زراری نے 28 فروری کی رات ایک ریاستی ادارے کے سربراہ کی خدمت میں بڑے عاجزانہ انداز میں یہ درخواست پیش کی کہ براہ کرم ہمارے ووٹ توڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔ 

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے ایک رات قبل 11 مارچ کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے یہی بات انتہائی جارحانہ انداز میں ایک ویڈیو بیان کے ذریعے کہہ دی جس نے حکومت سے زیادہ اپوزیشن کی صفوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ 11مارچ کی رات ایک دوست نے آصف علی زرداری کو نواز شریف کا ویڈیو بیان سنوایا تو زرداری صاحب بیان سن کر خاموش رہے۔ دوست نے پوچھا آپ کے پاس تو زیادہ ثبوت ہیں، آپ ایسا بیان کیوں جاری نہیں کرتے؟ زرداری صاحب نے جواب میں کہا کہ میرا ڈومیسائل سندھ کا ہے، میری کہی ہوئی چھوٹی سی بات کا ردِعمل بہت زیادہ ہوگا۔ اگلے دن 12مارچ کو گیلانی صاحب ہار گئے تو زرداری صاحب کو تھوڑی ہی دیر میں پتہ چل گیا کہ یہ جھٹکا اپنوں کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ 

اپوزیشن کے 7 سینیٹرز کو کچھ ضرورت سے زیادہ سمجھدار دوستوں نے گیلانی صاحب کے نام کے اوپر مہر لگانے کا حکم دیا اور انہوں نے حکم کی تعمیل کی جسے پریذائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے اپنی مرضی کا رنگ دیا اور 7 ووٹ مسترد کر دیے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے۔ دعا کیجئے کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے ایک رات قبل پولنگ بوتھ کے اندر نصب ہونے والے خفیہ کیمروں کا معاملہ پارلیمینٹ کے اندر ہی حل ہو جائے۔ یہ معاملہ حل نہ ہوا تو بہت سے لوگوں پر بہت گند اچھلنے والا ہے۔ صادق سنجرانی کیلئے سینیٹ چلانا بہت مشکل ہوگا کیونکہ وہ اقلیت میں ہیں۔ 

نیب نے 13مارچ کو مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کر دی ہے اور کہا ہے کہ مریم نواز ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ایک ریاستی ادارے کی طرف سے ایک سیاست دان پر ریاست دشمنی کا الزام ریاست کی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کا ثبوت ہے۔ پہلی دفعہ پنجاب کی سیاسی قیادت پر ریاستی ادارے ملک دشمنی کے الزامات لگا رہے ہیں۔

 ڈریے اس وقت سے جب مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت پاکستان میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والوں پر کشمیریوں سے غداری کا کھلم کھلا الزام لگائے گی۔ یہ تو بھارتی حکومت کی مہربانی ہے کہ حریت قیادت جیلوں میں بند ہے۔ یہ قیادت رہا ہو گئی تو ان میں سے کچھ بزرگوں کی طرف سے کم از کم کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہر یار آفریدی کو جواب ضرور دیا جائے گا جنہوں نے ایک حالیہ بیان میں صرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ پاکستانیوں کا بھی دل دکھایا۔

 ایک دوسرے پر غداری کے الزام لگانے والے سینیٹ کے حالیہ الیکشن سے سبق سیکھیں۔ کوئی جیت کر ہار گیا کوئی ہار کر جیت گیا۔ روم میں سینیٹ کے اجلاس میں جولیس سیزر قتل ہوا تھا کہیں ہم نے 12مارچ کو سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں جمہوریت کو تو قتل نہیں کر دیا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔