13 فروری ، 2012
اسلام آباد…اڈیالہ جیل سے لاپتہ قیدیوں کی سماعت کے دوران عدالت نے فوج کے اداروں سے قانونی جواز اور کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے اور سماعت یکم مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قیدیوں کی ہلاکت کے مقدمہ کی سماعت کی، کمرہ عدالت میں قیدی اور انکے اہلخانہ بھی موجود تھے ۔ چیف جسٹس نے ایجنسیوں کے وکیل راجا ارشاد پر برہم ہوتے ہوئے کہاکہ عدالتی حکم کے باوجود تمام قیدی یہاں کیوں نہیں لائے گئے، لکھ کر دیں ، عدالتی کام میں کیوں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے؟ عدالت نے چیف سیکریٹری خیبرپختوانخوا کو بھی کہاکہ بتائیں کہ کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو کہاں رکھا گیا ہے۔ عدالت کے استفسار پر چیف سیکریٹری خیبر پختونخواہ نے بتایا کہ قیدیوں کو 26 جنوری کو پاراچنار کے سینٹر لایاگیا، اس سے پہلے یہ لوگ کہاں تھے معلوم نہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قیدی اگر مجرم ہیں تو عدالت کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں، بتایا جائے کہ یہ افراد کس ایجنسی کے پاس تھے۔ قیدیوں کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ تمام قیدیوں کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کردیا گیا ہے، اسی سے 90 کلوگرام وزن رکھنے والے یہ افراد اب 40 کلو کے رہ گئے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے استفسار کیا کہ کیا ان افراد کو اڈیالہ جیل میں بھی بیماری لاحق تھی؟انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کیا ان افراد کی حراست ، آئین کے آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی نہیں؟