بلیو اکانومی اور اس سے جڑے فوائد

فوٹو: جیو نیوز

دنیا میں نیلی معیشت نے ساحلی اقوام کے معیار زندگی کو بلند کرنےمیں اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان میں بھی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد ساحلی پٹی خوبصورت مقامات، پہاڑی سلسلوں اور  قدرتی بندرگاہوں سے بھری ہوئی ہے۔

دنیا بھر میں ساحلی اقوام معیشت کا اہم ستون سمجھی جاتی ہیں، اس میں بحری راستوں سے سفری اور  تجارتی سرگرمیاں، بندرگاہیں، ماہی گیری، بحری تحقیق، توانائی کے منصوبے، صنعتیں، واٹر اسپورٹس اور  ساحلوں کے پرکشش سیاحتی مقامات نیلی معیشت کا اہم جز ہیں۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز کی سینئر ریسرچر نغمانہ ظفر کہتی ہیں کہ بلیو اکانومی بڑی تازہ ٹرم ہے، یہ معاشی اصطلاح 2006 میں متعارف کرائی گئی اور 2010 میں اس پر کام شروع ہوا، پوری دنیا میں اس پر کام ہو رہا ہے، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ڈبلیو ایف بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔

فوٹو: جیو نیوز

نغمانہ ظفر کہتی ہیں کہ اس معاملے میں ایک کنفیوژن رہی ہے کہ دنیا بھر میں بلیو اکانومی اور میری ٹائم اکانومی کو ایک چیز سمجھا جانے لگا،  دونوں میں فرق ہے بلیو اکانومی ساحلی ترقی، قدرتی ماحول برقرار رکھنا اور  تخلیقات (Innovation) جیسے عوامل پر  مشتمل ہے جبکہ میری ٹائم اکانومی میں مختلف چیزیں ہیں جس میں جہاز رانی، بندرگاہیں، گہرے سمندر میں تجارتی سرگرمیاں، سمندر میں تحقیقی کام اور قدرتی توانائی دریافت کرنے کا عمل ہائیڈرو کاربن مائننگ شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم مطالعہ کرتے ہیں تو پاکستان کی ساحلی پٹی پر صرف ایک میگا سٹی کراچی ہے، پاکستان کی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد کوسٹ لائن پر کوئی اور  بڑا اور ترقی یافتہ شہر آباد ہی نہیں جسے ہم معاشی حب کے طور پر دیکھ سکیں، گوادر معاشی حب بننے جا رہا ہے، ہم پرامید ہیں کہ گوادر ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گا۔

انہوں  نے مزید کہا کہ نیلی معیشت میں اگر  ہم نے اپنی کوسٹل کمیونٹیز کو مضبوط کرنا ہے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبے اپنا کردار ادا کریں، کوسٹل کمیونٹی کی ترقی یا کوسٹ کے ساتھ ترقیاتی منصوبے صوبوں کی ذمہ داری ہے اور  صوبے بااختیار ہیں وہ فشریز پر کام کر سکتے ہیں، ایکوا کلچر پر کام کر سکتے ہیں، سیاحت کے شعبے میں بھی وسیع مواقع موجو دہیں، تعطیلات میں ہم پہاڑی اور سر سبز علاقوں میں جاتے ہیں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ہم پسنی، گوادر، اورماڑہ کے خوبصورت ساحل پر جاسکتے ہیں، ان مقامات کو ترقی دے کر ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے بہتر معاشی مفادات حاصل ہو سکتے ہیں۔

فوٹو: جیو نیوز

سینئر ریسرچر کا کہنا ہے اس کے باوجود کے ملک کی دو بڑی بندرگاہیں کراچی میں موجود ہیں اس شہر سے متعلق میری ٹائم فیلڈ میں توسیع نظر نہیں آتی، ہم ایک ٹرم استعمال کرتے ہیں سی بلائنڈنس، ہماری قوم، پالیسی بنانے والے اور  ارباب اختیار کے پاس اس حوالے سے معلومات کا فقدان رہا ہے، آگاہی ہی نہیں کہ سمندر اور ساحلی علاقوں کو پر مختلف منصوبوں سے بہت کچھ کمایا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سی پیک ایک اچھا انفرااسٹرکچر فراہم کر رہا ہے جس نے آپ کو کم از کم ٹرانسپورٹیشن کا سیٹ اپ مل رہاہے، یہ لوکل باڈیز اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس سے منسلک ترقیاتی وسائل کو کس طرح جوڑتے ہیں، حکومت اس پر بنیادی ضروریات فراہم کرے، سرمایہ کاروں کو مراعات دے کر  راغب کیا جائے تاکہ وہ سرمایہ کاری کرکے چھوٹے چھوٹے ماڈل پروجیکٹس بنا سکیں۔

نغمانہ ظفر کا کہنا ہے کہ چین نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے، انہوں ماڈل کوسٹ ٹاؤن اور  منصوبے بنائے جس وجہ سے وہ سیاحت میں اچھی رینکنگ پر آگئے ہیں، سیاحت کا شعبہ دنیا بھر میں اہم معاشی حصہ نظر آتا ہے۔

فوٹو: جیو نیوز

انہوں نے مزید کہا کہ نیلی معیشت میں زیادہ کردار حکومت کا ہی نہیں بلکہ ان اداروں کا ہے جو بنیادی طور  پر آگاہی کے لیے کام کرتے ہیں، تحقیقی مراکز، یونیورسٹیز  یا میڈیا اس پر زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں، حکومت رہنمائی فراہم کر سکتی ہے، باقی ان اداروں کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کے معماروں کو یہ بتانا ہوگاکہ چھپے ہوئے مواقع موجود ہیں جس پر کام کیا جاسکتا ہے اور  بچوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی معاشی بہتری کے لیے قدم بڑھائیں، اس معاملے میں وژن آپ کے تحقیقی اور  تعلیمی اداروں اور میڈیا کے کام سے ہی آئے گا۔

سینئر ریسرچر کے مطابق سمندر کے ساتھ ساحل پر قدرتی ماحول کو برقرار اور محفوظ رکھتے ہوئے معاشی ذرائع تلاش کرنا اور  ساحلی کمیونٹیز کو اس میں شامل کرکے ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانا یہی بلیو اکانومی کے جز ہیں۔

سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی قدرتی حسن سے مالا مال ہے، سندھ میں 280 کلومیٹر اور بلوچستان میں تقریبا 800 کلومیٹر کا طویل ساحل خوبصورت مقامات اور نیلے پانیوں کا حسن رکھتا ہے۔۔ سندھ میں شہر کراچی ملک کی سب بڑی قدرتی بندرگاہ اور  پرکشش ساحل رکھتا ہے۔ پورٹ قاسم سے ٹھٹہ، بدین اور کیٹی بندر تک سمندری سلسلہ کئی سیاحتی مقامات رکھتا ہے۔

نغمانہ ظفر سینئرریسرچرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افئیرز

کراچی کے ساحل کلفٹن ، سی ویو اور دو دریا پر کچھ توجہ ضرور دی گئی ہے لیکن دیگر ساحلی مقامات پر ترقی دینے کے لیے کام نظر نہیں آتا، ماضی میں کئی سرکاری منصوبے بنائے گئے لیکن وہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہے۔ 

کراچی جیسے میگا سٹی میں پرکشش ساحل کے سیاحتی مقامات نیلی معیشت کا اہم جز ہیں لیکن اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کا معاملہ اب تک فوکس نہیں کیا گیا۔ ہاکس، پیراڈائزپوائنٹ، سینڈزپٹ، فرنچ بیچ، منوڑہ ، جزیرہ چرنا، بڈو، بنڈل، مبارک ولیج اورسونمیانی کے خوبصورت ساحل ترقی کے منتظر ہیں۔ انفراسٹرکچر کوبہتر بنانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصولوں کو شفاف طریقے سے عمل درآمد کرانا ہوگا۔

کراچی سے نکل کر حب بلوچستان سے شروع کریں تو گڈانی کا خوبصورت ساحل صرف جہازوں کو توڑنے کی صنعت کے علاوہ کوئی سیاحتی حیثیت حاصل نہیں کرپا رہا۔ اس ساحلی مقام پر توجہ کرکے سیاحت کو فروغ اور مقامی آبادیوں کو بہترین روزگار دیا جاسکتا ہے۔

کراچی سے مغرب میں 236 کلومیٹر بلوچستان کا ایک اور خوبصورت ساحلی مقام " کنڈ ملیر " سیاحوں کے لیے انتہائی کشش رکھتا ہے، پہاڑی سلسلے سے جڑے اس نیلے پانی کے ساحل کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، پہاڑ کے دامن میں کھڑی کشتیاں ساحل پر آنے والوں کو مکمل تفریح بھی فراہم کرتی ہیں۔

کراچی سے 190 کلومیٹر سے شروع ہونے والا پاکستان کا سب سے بڑا قدرتی وسائل سے بھرپور ہنگول نیشنل پارک بھی توجہ کا مرکز ہے۔ کل 6100 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا یہ پارک میدانی، ساحلی اور  پہاڑی سلسلے پر مشتمل خوبصورت مناظر سے بھرپور ہے۔

ملیر کنڈ سے آگے کئی خوبصورت پہاڑ اور خوبصورتی ساحلی مناظر سیاحوں کی کشش کا باعث ہیں۔ پرنسز آف ہوپ اور طلسماتی خیالات کو تقویت دینے والے پہاڑی سلسلے کے ساتھ اورماڑہ کا خوبصورت ساحل بہترین سیاحتی مقامات ہیں، اورماڑہ اور ملیر کنڈ کا فاصلہ تقریبا 180کلومیٹر ہے۔

ضلع گوادر کی تحصیل پسنی ساحل کے کنارے ایک چھوٹا سا پرکشش شہر آباد ہے، کراچی سے 450 کلومیٹر دور ماہی گیروں کا شہر پسنی اپنے خوبصورت پرکشش ساحلوں اور نایاب آبی حیات کے لیے مشہور ہے معروف جزیرہ استولا بھی پسنی میں واقع ہے جسے محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔

مکران کوسٹل ہائی وے پر چلتے چلتے کئی پرکشش ساحلی مقامات سے ہوتے ہوئے ہم گیم چینجر  پاکستان کا اہم جغرافیائی شہر اور  بلوچستان کے ضلع گوادر  تک پہنچتے ہیں، دنیا کی بہترین قدرتی بندرگاہ گوادر کے کنارے آباد اس شہر کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔

نیلے پانی کا یہ خوبصورت ساحل طلوع اور غروب آفتاب کے وقت دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت گوادر کا ماسٹر پلان تیار کیا گیا ہے۔ گوادر کے مشرقی اور مغربی حصے کو ماسٹرپلان میں بہتر طور پر تقسیم کیا گیا ہے  جہاں بندرگاہ، سامان کی ترسیل اور صنعتوں سے متعلق سرگرمیوں کے لیے زمین مختص کی گئی ہے جبکہ رہائش اور  سیر و سیاحت اور تفریحی مقامات کی جدید خطوط پر تعمیر کے لیے بھی زمین مختص کی گئی ہے۔

جیوانی تک اس پرکشش ساحلی پٹی کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے، نیلی معیشت سے استفادہ کرنے کے لیے پاکستان کے بحری حدود سے بین الاقوامی تجارت اور اس سے جڑے ایشیا کو جانے والے زمینی راستوں جدید خطوط پر استواراور محفوظ کیا جا رہا ہے، یہ بات اہم ہے کہ نیلی معیشت سے ساحلی اقوام یعنی مقامی آبادیوں کو سب سے بہتر معاشی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔

مزید خبریں :