22 مئی ، 2021
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمداللہ کے شناختی کارڈ کی بحالی اور شہریت منسوخی سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 29 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق حافظ حمد اللہ کے ساتھ 10مزید شہریوں کا شناختی کارڈ بھی بحال کیاگیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نادرا کسی کو بھی شہریت سے محروم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، نادرا کا کام صرف رجسٹریشن کرنا اور ڈیٹا بیس برقرار رکھنا ہے، نادرا خود سے نہ شناختی کارڈ بلاک کرسکتا ہے، نہ معطل ، نہ منسوخ۔
عدالت کا کہنا ہے کہ شہریت کا معاملہ سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت متعلقہ اتھارٹی ہی دیکھ سکتی ہے، شناختی کارڈ معطل یا بلاک کرنے کیلئے جوڈیشل آرڈر ضروری ہے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق حافظ حمد اللہ پاکستان میں پیدا ہوئے، بیٹا پاک فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے، کچھ ریکارڈ پر موجود نہیں آخر یہ نتیجہ نکالا کیسے گیا حمد اللہ اور دیگر پاکستانی شہری نہیں؟
فیصلے میں بتایا گیا کہ محض کسی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر نادرا کسی کی شہریت ختم نہیں کر سکتا، شہریت بنیادی حق ہے جس کے بغیر کوئی سیاسی، معاشرتی حقوق نہیں مل سکتے، پیدائشی پاکستانی قانونی طور پر خود بخود پاکستانی شہری بن جاتا ہے۔
عدالت نے عبدالرحیم، نائیک محمد، محمد حنیف اور دیگر کے شناختی کارڈ بھی بحال کرنے کا حکم دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان سمیت دنیا میں 35 ممالک ہیں جہاں پیدائش پر ہی شہریت ملنا شہری کا حق ہے، شہریت قانون کے مطابق حاصل حق ہے یہ ریاست کا استحقاق نہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ یہ طے کرے پاکستان میں پیدا ہونے والا کیسے یہاں کا شہری نہیں؟
فیصلے کے مطابق بتایا گیا ناقص پالیسی کی وجہ ماضی میں کچھ نااہل لوگوں نے شناختی کارڈ حاصل کیے، اگر ایسا ہے تو اس کی ذمہ داری قانون بنانے والوں پر ہے، قانون کی خلاف ورزی کرکے کسی سے آئین میں دیا حق نہیں چھینا جا سکتا، نادرا کی آئینی ذمہ داری ہے قانون کے مطابق کام کرے اس سے باہر نہیں جا سکتے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعیت علمائے اسلام کے سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ بلاک اور شہریت منسوخی کا حکم کالعدم جبکہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے اس اقدام کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا تھا۔