02 جون ، 2021
اللہ کرے میں غلطی پر ہوں۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط نکلے لیکن میری جو رائے بن گئی ہے اس کو پوری دیانتداری کے ساتھ سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں میں زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہوں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک انارکی کی طرف جارہا ہے ۔ یہاں خانہ جنگی کی راہ تیزی سے ہموار کی جارہی ہے اور جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ دن رات ایک کرکے ملک کو بچانے میں لگے ہیں، وہ بھی شاید نادانستہ طورپر ایسے راستے پر لگا دے گئے ہیں کہ جس سے الٹااس ملک کے دشمنوں کو فائدہ ہوگا۔ اللہ گواہ ہے کہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ جن کے ذریعےمیں ان خطرات کا احاطہ کرسکوں جو افغانستان کی طرف سے پاکستان کے لئے کھڑے ہورہے ہیں۔امریکہ اور مغرب کی اسٹک اینڈ کیرٹ (ڈنڈے اور گاجر) والی پالیسی سے گاجر کا عنصر ختم ہورہا ہے ۔
گاجر انڈیا کے حصے میں جارہی ہے اور عنقریب پاکستان کے لئے صرف ڈنڈا رہ جائے گا۔ دوسری طرف چین کو ہم نے ناراض اور بداعتماد کردیا ہے ۔ معیشت بدحالی کا شکار ہے ۔ بلوچستان اور قبائلی اضلاع تو کیا گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر میں بھی لاوے پک رہے ہیں۔مذہبی انتہا پسندی کا چیلنج سنگین شکل اختیار کررہا ہے ۔ ان حالات میں ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو سول سوسائٹی یا اپوزیشن جماعتوں اور سلامتی کے اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی بجائے الٹا ان کو لڑارہی ہے ۔
الیکٹرونک میڈیا کی رہی سہی حیثیت کو ختم کرنے، اسے معاشی طور پر مفلوج اور برائے نام آزادی سے محروم کرنے کے بعد سونامی سرکار نے اب ایک آرڈیننس تیار کیا ہے کہ جو اگر اسی شکل میں نافذ کردیاگیا تو پاکستان نام کا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو گا لیکن عملاً وہ شمالی کوریا بن جائے گا۔
اس ایشو کو جب میں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ابتدائی مسودہ ہے جسے مشاورت کے لئے میڈیا مالکان کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور ان کے بقول مشاورت سے ہی اس کو حتمی شکل دی جائے گی لیکن ہم جانتے ہیں کہ عملاً وہ مشاورت کیسے ہوتی ہے۔ یقیناً یہ ابتدائی مسودہ ہے لیکن اس سے حکومت کی نیت اور ارادوں کا پتہ ضرور چلتا ہے اور پھر اگر وہ کرنے پر آجائے تو ہم جانتے ہیں کہ یہاں پر کس طرح پارلیمنٹ کو بلڈوز کیا جاتا ہے اور کس طرح حکومت من مانے طریقے سے آرڈیننسز جاری کرتی ہے ۔ اس آرڈیننس کے چیدہ چیدہ نکات آپ بھی ملاحظہ کیجئے :
آرڈیننس کا نام پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 ہے جس کی رو سے پیمرا وغیرہ کو ختم کرکے تمام ادارے ایک نئی اتھارٹی میں ضم کردئیے جائیں ۔ سابقہ ایکٹس اور قوانین ختم ہوں گے یاان میں ترمیم ہوگی اورمیڈیا یا سوشل میڈیا سے متعلق تمام معاملات بھی اس اتھارٹی کے تحت آجائیں گے۔یہ اتھارٹی فلم، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا یعنی ویب ٹی وی، آن لائن نیوز پلیٹ فارم وغیرہ کو بھی ریگولیٹ کرے گی۔نئے قانون کے تحت یوٹیوب چینل، ایمازون پرائم، نیٹ فلیکس اور ویب ٹی وی وغیرہ کے لئے بھی حکومت سے لائسنس درکار ہوگا۔
ڈیجیٹل میڈیا کے لئے بھی اخبار کی طرح اجازت لینا ضروری ہوگا۔اس اتھارٹی سے این او سی حاصل کئے بغیر ٹی وی اور اخبار کی طرح کوئی ڈیجیٹل چینل بھی نہیں چلاسکے گا۔یہ اتھارٹی الیکٹرانک چینلز اور اخبارات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا چلانے والوں کے خلاف بھی اسی طرح کارروائی کرسکے گی جس طرح پیمرا الیکٹرانک چینلز کے خلاف کرتا ہے ۔نئے قانون کے تحت یہ اتھارٹی خودمختار نہیں ہوگی بلکہ وفاقی حکومت اس کو پالیسی ایشوز پر ہدایات جاری کرے گی اور وفاقی حکومت کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔
اتھارٹی کا چیئرمین گریڈ 21 یا 22 کا سرکاری افسر ہوگا ۔ اس کے 24 ممبر ہوں گے جن میں گیارہ کی نامزدگی صدرمملکت وفاقی حکومت کے مشورے پر کریں گے۔اس اتھارٹی کے تحت الیکٹرانک میڈیا ڈائریکٹوریٹ، پرنٹ میڈیا ڈائریکٹوریٹ اور ڈیجیٹل میڈیا اینڈ فلم ڈائریکٹوریٹ کام کریں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے لئے بھی صوبائی، قومی اور عالمی سطح پرالگ الگ لائسنس لینے ہوں گے۔
ڈیجیٹل میڈیا کو بھی انٹرٹینمنٹ، کڈز، اسپورٹس، نیوز ، ٹورازم اور اسی طرح کی کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے گا اور کوئی فردصرف ایک شعبے کے لئے یوٹیوب چینل کا لائسنس حاصل کرسکے گا۔ ڈیجیٹل میڈیا کی بھی لائسنس فیس ہوگی۔ نئے قانون کے تحت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پابند ہوگا کہ وہ روزانہ پانچ فیصد حکومت کی طرف سے پبلک انٹرسٹ میں فراہم کردہ مواد کو چلائے گا۔کسی کو ایسا مواد چلانے یا آن لائن کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں ہیڈ آف اسٹیٹ (صدر) ، آرمڈ فورسز یا عدلیہ کی بدنامی ہورہی ہو۔
اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی میڈیا شکایات کونسلز قائم کی جائیں گی جوپرنٹ،الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف شکایات سنیں گی۔ شکایات کونسل کے ساتھ ایک ایڈوائزری کونسل ہوگی جس کے آٹھ میں سے چار ممبر حکومت کے ہوں گے ۔ اس کونسل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے ۔اسی طرح یہ اتھارٹی شوکاز نوٹس دیے بغیر اس اخبار ، ٹی وی چینل یا ڈیجیٹل چینل کے خلاف کارروائی کرسکے گی جس نے ایسا مواد نشر کیا ہو کہ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچے یا جو فحاشی پھیلانے کا موجب بنے یا جو مروجہ معاشرتی اقدارکے منافی ہو(نوٹ: نظریہ پاکستان اور قومی سلامتی تو ایک طرف لیکن کونسی چیز فحش ہے اور کونسی نہیں یا پھر کونسا کام ”مروجہ معاشرتی اقدار“ سے موافق ہے یا نہیں، یہ فیصلہ کون کرے گا؟
اپیلٹ کورٹ کے طور پر صدر میڈیا ٹریبونل بنائے گا، جس کا چیئرمین ایسا شخص ہوگا جو ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔ باقی ممبران متعلقہ حلقوں سے مقرر کرے گا ۔ یہ ٹریبونل میڈیا کمپلینٹ کونسل یا اتھارٹی کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرے گا۔یہ ٹریبونل ویج بورڈ پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے گا۔آرڈیننس کی رو سے میڈیا اور سوشل میڈیا سے ایک اپیل یعنی ہائی کورٹ میں اپیل کا حق چھین لیا گیا ہے اور اتھارٹی یا ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی ، اس آرڈیننس کے تحت خلاف ورزی کرنے والے میڈیا پرسنز کو تین سے پانچ سال قید تک کی سزا سنائی جاسکے گی۔
یہ اتھارٹی متعلقہ ڈویژن کی منظوری سے اپنے لئے رولز بھی بنااور تبدیل کرسکے گی گویا اس معاملے میں یہ اتھارٹی نیب سے بھی زیادہ بااختیار ہوگی۔اب آپ ہی بتائیے کہ اگر خدانخواستہ حکومت اس آرڈیننس کو اس شکل میں نافذکرتی ہے تو پاکستان میں کہاں کی آزادی اظہار رہ جائے گا اور پھر کیا اس کے بعد یہ ملک آزادی اظہار کے لحاظ سے شمالی کوریا کا منظر پیش نہیں کررہا ہوگا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔