بلاگ
Time 04 جون ، 2021

پاکستان کی سیاست اور ایکشن ری پلے

ہمارا سیاست دان جتنا بے حس ہے اتنا ہی بیوقوف بھی ہے ۔یہ وہ کمیونٹی ہے جو اپنی بھدی ناک سے آگے تو دیکھ نہیں سکتی، آئندہ نسلوں کا کیا دیکھے گی؟نوجوان کالم نگار آصف عفان کی چند روز قبل شائع ہونے والے کالم کی ان سطور پر غور فرمائیے پھر اگلی بات کی طرف آتے ہیں جو بنیادی طور پر پچھلی بات ہی ہے جس میں آج تک کوئی ’’تبدیلی‘‘ رونما نہیں ہوئی اور اﷲ نے چاہا تو ہو گی بھی نہیں۔ آصف عفان لکھتے ہیں۔

’’برادرِ محترم حسن نثار نے 24برس پہلے اپنے ایک کالم میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب بی بی اور بابو ایک ہی ٹرک پر سوار ہو کر جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔

یہ کالم انہوں نے اس وقت لکھا تھا جب نواز شریف اور بے نظیر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھے اور ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک سے کم خطرہ قرار دینے کو تیار نہ تھے ۔سیاسی اختلافات اور تعصبات کا عالم یہ تھا کہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کو غدار کہنے سے لیکر جھوٹے سچے مقدمات کے گڑھوں میں دھکیلنے سے لیکر سبھی کچھ کر لیا تھا۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب ان دونوں سیاسی بڑوں کے گٹھ جوڑ کی پیش گوئی کی گئی تو بڑے بڑے دانشوروں، تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں نے اسے ناممکن اور انہونی قرار دیا۔ 

بعض نے تو یہ کہنے سے بھی گریز نہ کیا کہ کالم نگار کا دماغ چل گیا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیں جبکہ اس دور میں دو پارٹی سسٹم چل رہا تھا ۔ایک پارٹی برسر اقتدار آکر اپوزیشن کو کرش کرتی تو اپوزیشن کی کوشش ہوتی کہ برسر اقتدار پارٹی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔

موقع ملتے ہی ایک دوسرے پر برتری کیلئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین سمیت صفِ اول کے رہنماؤں کوقیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔اس دور میں یہ لکھنا اور کہنا (معذرت کےساتھ ) دیوانگی سے کم نہ تھا لیکن پھر چشم فلک نے چند سال بعد دیکھا کہ بے نظیر اور نواز شریف دونوں ہی،جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق جلاوطنی کے دورے پرتھے ‘‘۔

قارئین !

یہ وہ دور تھا جب بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے ’’اباجی‘‘ کو پولیس کے ذریعہ اٹھوا کر ’’ڈالے‘‘ میں پھینکا اور اندر ڈال دیا جبکہ نواز شریف نے بےنظیر کے مجازی خدا آصف زرداری کو اندر کرکے ان کی زبان کٹوانے کی جمہوری کوشش کی۔نتیجہ یہ نکلا کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم۔ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔مزید نتیجہ یہ نکلا کہ جدہ میں راکھی بندھائی کی رسم کے بعد دونوں ’’بہن بھائی ‘‘بنے اور بات نام نہاد قسم کے ’’میثاق جمہوریت‘‘ تک جا پہنچی۔(پھر بلاول مریم بھی بہن بھائی ہوئے )

تب دونوں میں جھگڑا ’’پاکستان‘‘ نامی لذیذ کیک کے شیئر پر تھا کہ کون کتنا کھائے گا۔آج ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، لٹیرا اور دوسرے اس ایک کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے ہوئے نہیں شرماتا یعنی صورتحال جوں کی توں ہے۔فرق ہے تو بلاول مریم فیکٹر کا یعنی صورتحال بد سے بدتر بلکہ بدترین ہی ہوئی ہے ،کسی سیاسی نوگزے نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی یہ لوگ اس قابل ہیں کہ کبھی کچھ سیکھ سکیں۔

دلچسپ ترین بات یہ کہ جس بات کو آصف عفان نے میری ’’پیش گوئی‘‘ لکھا وہ پیش گوئی نہیں ..... سیدھی سادی کامن سینس کی بات تھی ۔تب میں کسی ’’تھرڈ فورس‘‘ کی تلاش بھی اسی یقین کے ساتھ کر رہاتھا کہ آخر کار عوام ان دونوں کو ہی دھتکار دیں گے۔میری اس کوشش کو بھی جناب مجید نظامی مرحوم جیسے سینئر بزرگ نے ’’مثالیت پسندی ‘‘ قرار دیا جو بلیک اینڈ وائٹ میں ریکارڈ پر موجود ہے ۔

عرض کرنے کا مقصد صرف اورصرف اتنا ہے کہ میں تسلسل کے ساتھ پھر کچھ باتیں عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جو ’’پیش گوئیاں‘‘ ہرگز نہیں، کامن سینس کی باتیں ہیں لیکن نہ تب کے سیاسی مہم جوئوں کو سمجھ آئی تھیں نہ آج کے سیاسی کوہ پیماؤں کو سمجھ آ رہی ہیں ۔یہ سب تو سیاسی طور پر بھی سٹھیائے ہوئے لوگ ہیں۔حیرت اور دکھ اس وقت ہوتا ہے جب میں بلاولوں اور مریموں کو بھی انہی خطرناک رستوں کا مسافر دیکھتا ہوں۔

’’ایکشن ری پلے ‘‘اپنے عروج پر ہے اور زوال کی انتہا یہ کہ ان سب کو مختلف نتائج کی امید ہے جو کبھی پوری نہ ہو گی۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم جیسے لوگوں میں محمد علی جناح جیسے باوقار، با اصول، مدبر، متوازن، وژنری، مستقل مزاج قائد کیسے اور کہاں سے آگئے تھے ؟محمد علی جناح کی قیادت کسی معجزہ سے کم نہ تھی اور معجزے روز روز نہیں ہوتے ۔

’’اے ماں!

تو نے ہمیں کن زمینوں پر کن زمانوں میں جنم دیا‘‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔