عمران ’سافٹ امیج‘ کے گرداب میں

قدرت اﷲ شہاب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں ایک جگہ لکھا ’’سخن ساز نعرے بھی سیاست کے وجود کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے جب ایک جماعت کو اقتدار سے ہٹانے کی جدوجہد کی تو وہ ایک جائز اور روایتی عمل تھا لیکن جب ان جماعتوں کے گٹھ جوڑ سے نظامِ مصطفیٰ کا نعرہ بلند ہوا تو اس سے ایجی ٹیشن کا رنگ بدل گیا۔

 یہ مقدس نعرہ منہ سے نکالنے سے بیشتر ان سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی ذاتی طرزِ معاشرت، رہن سہن، حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا جائزہ لینا چاہئے تھا کہ ان کا انفرادی کردار اس پیمانے پر کس حد تک پورا اترتا ہے‘‘۔ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد تحریک کا کیا بنا؟ ملک میں 5جولائی کو مارشل لا لگ گیا اور جمہوریت کا بستر گول کر دیا گیا۔

ہم اکثر نعروں کے سحر میں مبتلا رہنے والی قوم ہیں۔ کبھی نظریہ پاکستان کا نعرہ تو کبھی اسلامی سوشلزم یا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ، کبھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ اور اب ریاستِ مدینہ کا نعرہ۔ ہر چند سال بعد کوئی ایک نیا نعرہ آجاتا ہے مگر عوام کی زندگی میں نہ کل تبدیلی آئی نہ اب آنے کا امکان ہے۔ 

شہاب نامہ میں جس تحریک کا ذکر ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ 11سال کی آمریت کے نتیجے میں ایک بار پھر ’مذہب کارڈ‘ استعمال کیا گیا۔

 پہلے الیکشن جو تین ماہ میں ہونے تھے ملتوی ہوئے بلکہ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پہلے لوگوں سے ریفرنڈم کے ذریعے پانچ سحر انگیز سوالات پوچھے گئے اور اس کے باوجود کہ مشکل سے 5فیصد لوگوں نے اس میں حصہ لیا، جنرل ضیاء الحق پانچ سال کے لئے صدر بن گئے۔

جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس آمریت کا ایک تحفہ وی سی آر اور بھارتی فلمیں بھی تھیں جس سے نہ صرف ہماری اپنی فلم انڈسٹری بیٹھ گئی بلکہ ایک نئے رجحان نے جنم لیا اس سب کا مقصد لوگوں کو غیرسیاسی رجحانات کی طر ف مائل کرنا اور سیاست سے دور رکھنا تھا۔ پورا ملک لسانی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اسی دور کا ایک تحفہ پہلی افغان جنگ میں ہمارا کودنا ہے۔ ہم نے ایک بار پھر ایک سحر انگیز نعرہ دیا ’’جہاد افغانستان‘‘ اور دنیا بھر کے عربوں اور افریقی ممالک کے مسلمانوں کو دعوت دی۔ اربوں امریکی ڈالرز ملے مگر پھر روس بھی افغانستان سے چلا گیا اور امریکہ نے بھی جنگ ختم کر دی۔ 

جن ممالک سے یہ لوگ آئے تھے انہوں نے اپنے شہریوں کو لینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے نہ صرف 50لاکھ افغانیوں کو پناہ دی بلکہ ہزاروں عرب باشندے بھی یہیں رہ گئے۔ پھر 9/11آ گیا اور ہم ایک بار پھر ایک نئی افغان جنگ کا حصہ بن گئے۔ اب وہی مجاہدین دہشت گرد تھے۔ 

ہماری سر زمین اس بار دوسرے انداز میں استعمال ہوئی ہم نے امریکہ کو اڈے بھی دیے اور CIAاور FBIکو کارروائی کا اختیار بھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن ہماری سر زمین پر ہوا اور ہم ان سے وضاحت بھی طلب نہ کر سکے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے جب امریکہ کو ’’سفید ہاتھی‘‘ کہا تو ہم نے اس کو اس کی سیاسی چال قرار دیا مگر اس سفید ہاتھی سے آج ہم یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں ہمارے 70ہزار افراد جس میں ہمارے فوجی افسروں، سیاسی رہنما اور عام آدمی شامل ہیں، کی قربانیوں کا صلہ نہیں دیا۔

 کبھی یہ بھی سوچئے گا کہ ان دو جنگوں کا حصہ بن کر آپ نے خود اپنے ملک کا کتنا نقصان کیا؟ ہمارے شہروں میں منشیات اور اسلحہ کی فراوانی سے لے کر کالعدم تنظیموں تک۔ مسئلہ لباس یا زبان کا نہیں، سوچ کا ہے۔ 

اچھی بات ہے کہ ہمارے حکمران قومی زبان میں بات کرتے ہیں۔ قومی لباس پہنتے ہیں مگر کوئی انگریزی زبان میں بولتا ہے یا پینٹ شرٹ سوٹ پہنتا ہے تو وہ بھی پاکستانی ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کہہ کیا رہے ہیں۔ اِس لبرل اور روشن خیال فوبیا سے باہر نکلئے۔ آرمی پبلک اسکول، مشال خان یا زینب جیسے واقعات ہوتے رہیں گے تو آپ کا سافٹ امیج خراب ہی رہے گا۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بڑی طویل جنگ لڑی ہے مگر انتہا پسندی ہمیں واپس اسی جانب لے جا رہی ہے۔

پاکستانیت کے لئے پہلے قوم بننا پڑے گا۔ ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں، اردو زبان رابطے کا ذریعہ بن سکتی ہے مگر اسے فروغ دینے کے لئے آج تک کچھ نہیں ہوا، کہتے کہتے تھک گئے کہ بچوں بچیوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دیں۔ نامور اسکالر نوم چومسکی نے چند ماہ پہلے ایک لیکچر میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ’’پاکستان سائنس‘‘سے دور ہو رہا ہے۔ 

یاد رکھیں جس دن ہمارے تعلیمی ادارے درس گاہیں بن جائیں گے، جس دن ہم معاشی قوت بن جائیں گے اس دن آپ کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ ہمیں کس زبان میں بات کرنی چاہئے یا کیا لباس پہننا چاہئے۔ ہم تو آج تک کوئی جمہوری و سیاسی نظام ہی وضع نہیں کر پائے۔ اسی کنفیوژن میں سات دہائیاں گزار دیں۔ وزیراعظم اس ’’سافٹ امیج‘‘ کے گرداب سے باہر آئیں گے تو بہت سے معاملات خود بخود ٹھیک ہوں گے۔

’’شہاب نامہ‘‘ میں ہی ایک جگہ قدرت اﷲ شہاب لکھتے ہیں ’’پاکستان میں جمہوریت سسک سسک کر جی رہی ہے ۔ آئین کی منسوخی نے اس کا گلا اور بھی گھونٹ دیا۔ زندگی اور جمہوریت میں ایک قدر مشترک ہے کہ پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے دونوں منقطع نہیں ہوتیں بلکہ جوں کی توں چلتی رہتی ہیں۔ اگر جمہوریت ناکام ہونے لگے تو انتقالِ خون کی طرح اس کا واحد علاج مزید جمہوریت ہے، پھر ناکام ہو تو مزید جمہوریت‘‘۔

یاد رکھیں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لئے ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہے۔ آخر عمران خان بھی تو اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ پاکستانیت ہی ہمارا سافٹ امیج ہے مگر پہلے پاکستانی بنیں تو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔