06 جولائی ، 2021
گومگو چھوڑیں، سیدھی بات کریں۔ کوئی حادثہ نہ ہوا تو سیاست کا ہدف اب اگلے انتخابات ہیں۔
معاشی اشاریوں میں بہتری کے بعد سے عمران خان اور تحریک انصاف کو یہ اُمید ہو چلی ہے کہ وہ اگلا الیکشن جیت جائیں گے جبکہ پاکستان کے ماضی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ کوئی وفاقی حکومت مسلسل دو بار انتخابات جیت کر حکومت نہیں بنا سکی۔ اس لئے عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے یہ ریکارڈ توڑنا ازحد مشکل ہو گا۔
اگر اس وقت کی زمینی صورتحال کا جائزہ لیں تو صوبہ پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا آمنا سامنا ہو گا۔ اگر انتخابات سے پہلے توڑ پھوڑ اور مداخلت نہیں ہوتی تو پھر تاحال ن لیگ کا پلہ بھاری نظر آتا ہے تاہم پی ٹی آئی بھی دو پارٹی نظام کے تحت 2018ء کی نسبت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور ہر جگہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے گی۔
اگر اگلے انتخابات کا خاکہ تیار کیا جائے تو سوچنا پڑے گا کہ کیا اس وقت کے زمینی حالات 2018ء والے ہوں گے، 97ء والے ہوں گا یا بالکل کوئی نئی صورتحال ہو گی۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ انتخابی گھوڑوں میں کس طرح کی ہوا چلتی ہے اور کس طرف کے اشارے ملتے ہیں۔
صاف بات ہے کہ اگر تو ن لیگ کو باری نہیں ملنی تو اگلے انتخابات سے پہلے پہلے ن لیگ کے اندر دھڑے بندیاں واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اگر پی ٹی آئی کو دوبارہ باری نہیں دینی تو پھر پی ٹی آئی کے اندر سے ترین گروپ کے بعد ایک اور بڑا دھڑا رونما ہوگا جو بالآخر اپنی صفیں الگ کر لے گا۔
گویا انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کا خاکہ اس وقت تیار ہوگا جب پارٹیوں کے اندر توڑ پھوڑ شروع ہو گی۔ ہر الیکشن سے پہلے یہ توڑ پھوڑ ہوتی ہے مگر اس بار اس میں زیادہ زور و شور کا امکان ہے۔
سیاسی جماعتوں کی فالٹ لائنز کا سب کو علم ہے اور ان فالٹ لائنز کو گہرا کر کے سیاسی دھڑوں میں تبدیل کرنا مشکل نہیں ہوتا۔
ن لیگ میں نواز اور شہباز کے نام سے مزاحمتی اور مصالحتی سوچیں موجود ہیں اگر ان سوچوں کو گہری نظر سے دیکھیں تو پارلیمانی پارٹی کا زیادہ جھکاؤ ن لیگ کی مصالحتی سیاست کی طرف ہے جبکہ نظریاتی کارکنوں اور جماعتی عہدیداروں کا جھکاؤ مزاحمتی سیاست کی طرف ہے۔
اگر تو فری فار آل سیاست ہوتی ہے تو مریم نواز عوامی مقبولیت کے سہارے آسانی سے گول پر گول کر دے گی لیکن اگر کنٹرولڈ سیاست ہوئی تو پھر ن لیگ میں قرعہ فال شہباز شریف کے نام نکلے گا۔
تحریک انصاف کی فالٹ لائنز بھی بڑی واضح ہیں۔ ترین گروپ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جنوبی پنجاب اور پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والے زیادہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر بھی بہت بےچینی ہے اگرچہ اس بار ارکانِ اسمبلی کو پہلی بار ترقیاتی فنڈز ملے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی محرومیوں کے شکوے پارلیمانی گیلریوں میں بکھرے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف اپنے اکثر اتحادیوں کو بھی راضی رکھنے میں ناکام ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔
اندیشہ یہ ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے اندر سے ایک اور بڑا گروپ جنم لے سکتا ہے جس میں زیادہ تر بیک بنچر اور شنوائی نہ ہونے والے ارکان ہوں گے۔ جنوبی پنجاب کے اراکین کی ان میں زیادہ تعداد ہو سکتی ہے۔
اگر تو ایسا گروپ واقعی سامنے آ گیا اور پھر پی ٹی آئی نے ترین گروپ کو بھی ٹکٹ نہ دیے تو پی ٹی آئی کے لئے انتخابی گھوڑے کم رہ جائیں گے اور ان کے مخالف تحریک سے الگ ہونے والے انتخابی گھوڑوں کو اپنی سبز چرا گاہوں میں مدعو کر لیں گے۔
سیاست کے اس جوڑ توڑ میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کن عناصر پر مشتمل ہو گی اور وہ الیکشن کو کتنا شفاف رکھنا چاہتے ہوں گے؟ توقع یہی کرنی چاہئے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی زبردست شخصیت کی وجہ سے انتخابات پہلے سے بہتر صورتحال میں منعقد ہوں گے۔
ضمنی انتخابات میں جس طرح سے قواعد و ضوابط کو سختی سے لاگو کیا گیا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو الیکشن کے اندر بےقاعدگیاں کم سے کم ہوتی جائیں گی۔
اگر سیدھا حساب لگایا جائے تو ابھی الیکشن میں دو سال پڑے ہیں۔ پاکستانی سیاست کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ دو سال بھی بےکیف نہیں گزر سکتے۔ پاکستان میں سیاست حادثات اور واقعات کی محتاج ہوتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کل ہی کوئی ایسا حادثہ یا واقعہ ہو رونما جائے جس سے حکومت بیک فٹ پر چلی جائے، اپوزیشن جارحانہ رویہ اختیار کر لے، عوامی بےچینی بڑھ جائے، جلسے جلوس شروع ہو جائیں، ایسا ہم نے پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے، ایسا پھر بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں بیرونی عوامل بھی بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی آئے روز ’’فتوحات‘‘ کے بعد پاکستان ایک بار پھر بیرونی توجہ کا مرکز بنے گا۔ پاکستان اگر طالبان کی مدد نہیں بھی کرتا اور اس کے باوجود وہ ’’فتوحات‘‘ حاصل کرتے ہیں تو الزام پاکستان پر لگے گا۔
دوسری طرف اگر طالبان پر ڈرون حملے ہوتے ہیں، چاہے وہ افغانستان میں ہوں پاکستان میں تو کئی طالبان کی انگلیاں ہماری طرف اٹھیں گی۔ پاکستانی طالبان تو پہلے ہی پاکستان کے خلاف دھماکوں میں ملوث ہیں غرضیکہ پاکستان آنے والے چند برسوں میں انتہائی مشکل صورتحال میں ہو گا۔
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، دنیا کو ہم پر شک ہے کہ ہم امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے ہیں، ہم ان سے امداد لیتے ہیں، بظاہر ان کے اتحادی بھی ہوتے ہیں مگر اندر سے طالبان کی بھی مدد کرتے ہیں۔ موجودہ فوجی اور قومی قیادت اس بحران سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش میں ہے۔
اگر تو پاکستان دنیا کی توقعات کے مطابق چلا تو پاکستان کے معاملات میں مداخلت کا امکان کم ہے لیکن اگر ہم پر ڈبل گیم کے الزامات لگے تو اگلے انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں ہوں گی اور شاید یہ دبائو بھی ہو گا کہ انتخابات میں کسی قسم کی غیرسیاسی مداخلت نہ ہو۔ یہ بھی امکان موجود ہے کہ امریکہ ماضی کی طرح پاکستان کی سیاست میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کرے اور ماضی کی طرح انتخابات کے پراسس کی نگرانی بھی کرے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔