04 اگست ، 2021
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کے بل پرکمیٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر سمیت اپوزیشن ارکان نے سوالات اٹھا دیے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ری ویو اینڈ ری کنسڈریشن بل 2020 پر بحث کی گئی۔
رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کلبھوشن کو سزا پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ہوئی، حکومت آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کر لیتی؟
چیئرمین کمیٹی بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پاکستان کے بین الاقوامی معاہدے ہیں لیکن کسی کے غلام نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے کو اتنی اہمیت دے دی گئی کہ اس کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں، یہ پسند نہیں آیا کہ عالمی عدالت نے حکم دیا اور ہم قانون بنانے لگ گئے، بل کے مطابق حکومت بھارتی جاسوس کو اپیل کا حق دے رہی ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم بولے کہ آپ نے بل پڑھا ہی نہیں، اگر ایک شخص کو قانون پسند نہیں آرہا تو کیا قانون ہی نہ بنائیں؟
اعظم نذیر تارڑ کا کہناتھا کہ ایسا قانون بنانا ہے تو کلبھوشن کو ویسے ہی بھارت کے حوالے کر دیں، صرف ایک شخص کیلئے قانون کیوں بنایا جا رہا ہے؟ پاکستانی شہریوں کو تو ملٹری کورٹس سے سزا کے بعد اپیل کا حق آج تک نہیں دیا گیا۔
اجلاس کے دوران بیرسٹر فروغ نسیم کمیٹی ممبران کے سوالات پر غصے میں آ گئے اور کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سب بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں، وزیر ہوں ، کسی کا نوکر نہیں، عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد قانون سازی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ بھارت پاکستان کی خلاف عالمی عدالت میں توہین عدالت کارروائی بھی کر سکتا ہے۔
سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھاکہ عالمی عدالتِ انصاف میں توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔
چیئرمین کمیٹی نے وزیرِ قانون کی ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست کے بعد بل پر بحث ملتوی کر دی۔