بلاگ
Time 07 اگست ، 2021

ہنجر وال سے لندن تک

جہاں انسان ہوگا وہاں گناہ بھی ہوگا، جرم بھی ہوگا لیکن اس معاشرہ میں تو تمام سائونڈ بیریئرز ہی ٹوٹ چکے ۔ کس قسم کی گھٹن اور کس نوعیت کا حبس ہے کہ آدم زادوں کی روحوں پر مالی اور جنسی آدم خوروں کا قبضہ ہے۔ دیکھنے میں انسان، برتنے میں شیطان در شیطان در شیطان۔ 

ملکی اقتصادی حالت سدھارنے کے سو طریقے ہیں، اس کام کے لئے ایکسپرٹس یعنی ٹیکنو کریٹس کی بھی کمی نہیں اور آثار بھی اقتصادی سدھار کے اشارے دے رہے لیکن بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اجتماعی، اخلاقی بربادی کو کون اور کس طرح سنبھالے گا کیونکہ اس کے نام نہاد ذمہ دار اور ایکسپرٹس تو خود اخلاق باختگی کے شرمناک نمونے پیش کر رہے ہیں، ذہنی پستی اور جہالت کے سرچشمے ہیں۔ کسے یاد نہ ہوگا کہ عشروں پہلے اقبالؒ نے کن پیشہ وروں کو ’’فی سبیل اللّٰہ فساد‘‘ کی جڑ قرار دیا تھا۔

ہنجر وال سے 30 جولائی کو چار لڑکیوں کے مبینہ اغوا میں ملوث 5 افراد کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا اور ساتھ ہی دو خواتین کوبھی 7ملزمان اور بازیاب چاروں لڑکیوں سمیت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا گیا۔ چل سو چل ہے جو نجانے کب کسی منطقی انجام کو پہنچے گا۔ معمول کے اس کیس کے حوالہ سے چند سرخیاں قابل غور ہیں۔

’’کمسن بچیوں کی خرید و فروخت، دہلا دینے والے انکشافات‘‘

’’ارسلان رکشے پرگھماتا رہا، شور مچانے پر پنڈی سٹاپ پر اتار دیا‘‘

’’بچیاں دوسرے شیطان رکشہ ڈرائیور کے ہتھے چڑ ھ گئیں‘‘۔

’’قاسم اپنے گھر باگڑیاں لے گیا، زیادتی کی کوشش بھی کی۔ نعیم شہزاد عرف سونو سے ڈیل کرکے فروخت کر دیا‘‘

’’قاسم نے تین لڑکیاں نعیم، ایک لڑکی کو ایک لاکھ میں شہزاد کو فروخت کیا‘‘

شیطان در شیطان در شیطان داستان میں قاسم کا نام دیکھ کر مجھے محمد بن قاسم یاد آیا تو پہلی بار شک گزرا کہ یہ کہانی کہیں من گھڑت تو نہیں کہ اغوا ہوئی عورتوں کی پکار پہ لبیک کہنے والے محمد بن قاسم کے کارنامے فخر سے بیان کرنے والے اپنی ہی بہنوں بیٹیوں کو اتنی بے غیرتی سے بیچ کیسے سکتے ہیں؟

یہ سلسلہ بلکہ سلسلے کہیں رکیں گے بھی یا نہیں؟ اس ملک کے کرتے دھرتے اگر روک نہیںسکتے تو ایک کام کریں اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دینے کو قانونی قرار دے دیں کہ نہ رہیںگے بانس نہ بجیں گی بانسریاں . . . . . نہ عورتیں ہوں گی نہ بکیں گی نہ ان کی توہین و تذلیل ہوگی۔

’’ثنا خوان تقدیس مشرق‘‘ .....یہ چادریں چاردیواریاں، یہ بیٹیاں سانجھی ہونے والے محاورے . . . . . یہ سب کیا رطب و یابس ہے؟ یہ غیرتوں پر قتل کیا شے ہے؟ ہر روز ’’حقوق نسواں‘‘ کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے پر پردوں کی دھجیاں اڑتی ہیں، شور مچتا ہے، خبریں، کالم چھپتے ہیں اور پھر ’’زندہ‘‘ لوگوں پر سکوت مرگ طاری ہو جاتا ہے۔

کوئی ہے جو اس صورت حال کی سنگینی کا سنجیدگی سے نوٹس لے یا اس ملک کے بڑوں نے اسے ’’وے آف لائف‘‘ سمجھ کر قبول کرلیا ہے؟ یا ہمارے نصیبوں میں ہنجر وال سے لے کر لندن تک ہزیمت اور ندامت ہی لکھی ہے۔ جب تک یہی سین چلنے ہیںتب تک ’’اسلامی‘‘ اور ’’جمہوریہ‘‘ جیسے لفظ معطل ہی کیوں نہ کردیئے جائیں کہ ہماری ٹائپ کی جمہوریت کے ایک صحت مند سمبل، تین بار وزیراعظم رہ چکے ’’انقلابی‘‘ اور ’’نظریاتی‘‘ المعروف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا ویزا ختم، قیام میں توسیع کی درخواست مسترد ہو چکی ۔ اب یہ ’’انقلابی‘‘ عدالتی آنکھ مچولی کھیلنا شروع کرے گا۔ نتیجہ جو بھی نکلے لیکن ایک بات طے کہ شرمندگی ہم غیوروں باشعوروں کے کھاتے چڑھ چکی ۔

اک اور دلچسپ پہلو یہ کہ ’’ابا جی‘‘ کے ویزے میں توسیع کی درخواست برطانوی شہری ہونے کی بنیاد پر ان کے صاحبزادے حسن نواز نے دی تھی جسے ہوم آفس نے مسترد کردیا۔

واہ . . . . . . اولادیں اور جائیدادیں انگلستان میں اور پاکستان کے حصہ میں آئی ’’ووٹ کی عزت‘‘ ملک ان کا انگلستان ہی ہے،پاکستان ’’ہوم میڈ قائد اعظم ثانی‘‘ نے صرف حکمرانی کے لئے رکھا ہوا ہے۔

قائداعظم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر انگلستان سے آئے تاکہ قیام پاکستان کی چومکھی جنگ لڑ سکیں جبکہ ’’ثانی صاحب‘‘ گوالمنڈی لاہور والا پاکستان چھوڑ چھاڑ کر انگلستان میں ویزے کی توسیع کے لئے درخواستیں دے کر ووٹ کو عزت دیتے ہوئے جنرل ضیا الحق مرحوم کو دعائیں دے رہے ہیں کیونکہ بیٹے برطانوی شہری ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔