پاکستان

مفت کورونا ویکسین بھاری معاوضے پر 59 افراد کو لگانے والے گرفتار

کورونا وائرس کی ویکسین فروخت کرنے کے معاملے میں 7  گرفتاریوں کے بعد 59 افراد کو ویکسینیٹ کرنے کا ریکارڈ بھی مل گیا ہے — فوٹو: جیو نیوز
کورونا وائرس کی ویکسین فروخت کرنے کے معاملے میں 7  گرفتاریوں کے بعد 59 افراد کو ویکسینیٹ کرنے کا ریکارڈ بھی مل گیا ہے — فوٹو: جیو نیوز

کورونا وائرس کی ویکسین فروخت کرنے کے معاملے میں 7 گرفتاریوں کے بعد 59 افراد کو ویکسینیٹ کرنے کا ریکارڈ بھی مل گیا ہے۔

کراچی میں کورونا ویکسین چوری کیس کی تفتیش ساؤتھ پولیس نے مکمل کر لی ہے، پریڈی تھانے میں درج مقدمے میں پولیس کی جانب سے محکمہ صحت کے سپروائزر اور ایک این جی او کے سربراہ سمیت 7 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔


پولیس کے مطابق ملزمان نے عام شہریوں کیلئے مختص مفت کی ویکسین بھاری معاوضے کے عوض 59 شہریوں کو لگانے کا اعتراف کیا ہے۔

ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ محمد عمران مرزا کے مطابق پریڈی تھانے میں درج ایف آئی آر نمبر 1171/21 کی تفتیش کے دوران مجموعی طور پر 7 ملزمان این جی او ملازم محمد علی، ریٹائرڈ میجر امان اللہ سلطان،  ویکسینیٹر ذیشان، ٹاؤن ویکسین سپروائزر عبدالصمد، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس ایسٹ کے اسٹور کیپر وقاص، مقامی این جی او کو کوروناویکسین کرنے کا جعلی اتھارٹی لیٹر جاری کرنے والے ڈاکٹر فرحت اور ڈاکٹر فیصل کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل کا مرکزی کردار سلطان المدد پرائیویٹ لمیٹڈ نام کی این جی او کی انتظامیہ ہے جس نے کچھ عرصے قبل کراچی میں مفت ویکسینیشن کرانے کا کیمپ لگایا تھا جس کے لیے ویکسین ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس ایسٹ سے فراہم کی گئی۔

ایس پی عمران مرزا کے مطابق انہوں نے واٹس ایپ گروپ بنا کر 15 ہزار روپے کے عوض گھروں پر ویکسین لگانے کا کام شروع کر دیا، ٹاؤن ویکسین سپروائزر عبدالصمد انہیں کورونا ویکسین ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس دفتر سے لا کر دیتا تھا۔ واٹس ایپ پر آرڈر ملنے پر یہ لوگ گھروں پر جاکر ویکسینیشن کرتے تھے اور فی ویکسینیشن 15 ہزار روپے وصول کیے جاتے تھے جن میں سے ساڑھے 7 ہزار روپے عبدالصمد، ڈھائی ہزار روپے ذیشان اور پانچ ہزار روپے امان اللہ سلطان کے حصے میں آتے تھے۔

پولیس کو دستیاب ریکارڈ کے مطابق ملزمان اب تک کراچی میں 59 افراد کو کورونا ویکسین لگا چکے ہیں جبکہ ملزمان کورونا ویکسین رجسٹریشن کے لیے غیرملکی کوریئر کمپنی کیلئے جاری کیا گیا کوڈ اور پاس ورڈ استعمال کرتے تھے۔ پولیس کا بتانا ہے کہ مقدمے کی مزید تفتیش کی جارہی ہے۔

مزید خبریں :