11 اگست ، 2021
امریکہ نے بار بار اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے متعلق نوے کی دہائی یا پھر سوویت یونین والی غلطی نہیں دہرائے گا لیکن اس نے اس غلطی کو سوویت یونین سے بھی زیادہ بدترین شکل میں دہرا دیا۔سوویت یونین نے یہ غلطی کی تھی کہ ڈاکٹر نجیب ﷲ کی حکومت اور مجاہدین کے مابین سیاسی مفاہمت کا انتظار نہیں کیا۔
جینوا معاہدے کے تحت اپنی افواج کو نکالنے کا راستہ نکال کر افغان سرزمین سے نکل گیا اور ڈاکٹرنجیب ﷲ کی حکومت کو مجاہدین کے مقابلے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ سوویت یونین افغانستان سے مکمل طور پر نکل گیا اور خود بھی اندرونی مشکلات کا شکار ہوا لیکن جاتے وقت اس نے نجیب حکومت کے لئے خاطر خواہ اسلحہ چھوڑ دیا تاہم امریکہ نے اپنی افواج تو نکال لی ہیں البتہ امریکہ خودنکل رہا ہے اور نہ لاتعلق ہورہا ہے البتہ اس نے سوویت یونین کی طرح خاطر خواہ فضائیہ افغان حکومت کے پاس چھوڑی اور نہ سکڈ میزائل جیسے موثر ہتھیار بلکہ امریکہ کے چھوڑے ہوئے زیادہ تر جدید ہتھیار طالبان کے ہاتھ آرہے ہیں یا پھر جان بوجھ کر ان کے ہاتھ میں دئیے جارہے ہیں۔ اشرف غنی حکومت کے پاس صرف تیس جہاز ہیں لیکن ان کے پائلٹ ان سے استفادے کی بھی بھرپور صلاحیت نہیں رکھتے۔
افغانستان سے نکلتے وقت سوویت یونین افغانستان کے کسی پڑوسی ملک کو دھمکیاں نہیں دے رہا تھا لیکن امریکہ برملا اعلان کررہا ہے کہ اس کا اگلا ہدف چین ہے۔ اس لئے یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ شاید جان بوجھ کر امریکہ افغانستان کو انتشار کے سپرد کررہاہے تاکہ یہاں سے چین، پاکستان، ایران اور روس کے لئے مشکلات کھڑی کرسکے۔ یوں اگر موجودہ بحران کا اصل ذمہ دار کوئی ملک ہے تو وہ امریکہ ہے اور اشرف غنی حکومت کوامریکہ نے ہی طالبان کے سامنے نہایت کمزور پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔
نوے کی دہائی میں جو رویہ ڈاکٹر نجیب ﷲ نے اپنایا تھا،اس کے مقابلے میں اشرف غنی حکومت کا رویہ کئی گنا زیادہ نامناسب ہے۔ ڈاکٹر نجیب ﷲ مجاہدین کے ساتھ مفاہمت میں زیادہ سنجیدہ نظر آرہے تھے لیکن ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے ساتھی اتنے سنجیدہ نظر نہیں آتے کیونکہ مفاہمت کی صورت میں انہیں اپنی رخصتی یقینی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر نجیب ﷲ کے پاس پچاس ہزار سے کچھ زیادہ فوج تھی اور اشرف غنی کے پاس دو لاکھ سے زائد لیکن ڈاکٹر نجیب ﷲ اپنی فوج کو بھرپور طریقے سے لڑارہے تھے جبکہ اشرف غنی اپنی فوج کو بھرپور طریقے سے لڑانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر نجیب ﷲ کی حکومت منظم اور نظریاتی حکومت تھی جبکہ اشرف غنی کی حکومت نظریاتی ہے اور نہ اس میں وہ ہم آہنگی نظر آتی ہے۔
مجاہدین کی طرح طالبان کو بھی فتح نصیب ہوئی ہے لیکن بدقسمتی سے وہ مجاہدین کی غلطی کو دہرارہے ہیں اور ان کا رویہ مجاہدین سے بھی زیادہ سخت اور جارحانہ ہے۔ مجاہدین اگر ڈاکٹر نجیب ﷲ کی صلح کی پیشکش کو قبول کرتے اور سیاسی حل نکال لیتے تو نہ صرف اپنی کامیابی کے پھل کو سمیٹ سکتے تھے بلکہ افغانستان بھی آباد اور خوشحال ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے ڈاکٹر نجیب ﷲ کو کمیونسٹ اور کٹھ پتلی قرار دے کر ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت سے انکار اور جنگ پر اصرار کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں ان کو جنرل رشید دوستم اور شاہنواز تنئی جیسے لوگوں کو بھی ساتھ ملانا پڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور جنگوں کے ذریعے افغانستان کو تباہ کیا۔
پھر جب نجیب حکومت کا خاتمہ ہوا تو آپس میں لڑ پڑے اور ان لڑائیوں میں افغانستان اس سے بھی زیادہ تباہ و برباد ہوا جتنا کہ سوویت یونین یا نجیب حکومت کے ساتھ جنگ میں تباہ ہوا تھا۔ نتیجتاً مجاہدین جو سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد ہیرو بنے پھرتے تھے، نفرت کی علامت بن گئے اور اس نفرت کے نتیجے میں ان کے مقابلے میں طالبان نکل آئے۔ اگر نائن الیون نہ ہوتا اور امریکہ افغانستان میں نہ آتا تو ان مجاہدین کا واپس اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
طالبان ، مجاہدین کی طرح اشرف غنی حکومت کو کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ وہ سیاسی حل کے لئے عملاً آمادہ نظر آتے ہیں اور نہ اشرف غنی، رشید دوستم اور عبدﷲ عبدﷲ وغیرہ کے ساتھ مل کر سیاسی نظام تشکیل دینے پر۔ وہ تنہا اپنی حکومت یا امارات اسلامی کی بحالی پر اصرار کررہے ہیں اور بحالی کی صورت میں تاجک، ازبک اور ہزارہ کو حکومت میں نمائندگی دینا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی مذکورہ شخصیات کونہیں۔ طالبان نے بھرپور جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ کئی صوبوں پر قبضہ کرلیا اور مزید پر قبضے کی کوشش کررہے ہیں۔ جواب میں اب امریکہ نے بھی بمباری کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
طالبان لاکھ کہیں کہ وہ بدل گئے ہیں اور وہ عوام یا سرکاری حکام سے کوئی انتقام نہیں لیں گے لیکن جنگ بذات خود بدترین انتقام ہے جس سے افغان عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ طالبان اگر سیاسی حل نکال کر سب کے لئے قابل قبول حکومت بنا لیں تو نہ صرف اپنی فتح کو تاریخی بناسکتے ہیں بلکہ اس فتح کے نتیجے میں امن لاکر افغان عوام کے دائمی ہیرو بھی بن سکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے جنگ پر اصرار جاری رکھا تو جلد یا بدیر وہ بھی مجاہدین کی طرح عوام کی نفرت کا نشانہ بن جائیں گے۔
بدقسمتی سے پاکستان نے بھی ماضی کی غلطی کو دہرادیا۔ جینوا معاہدے کا سبق یہ تھا کہ پاکستان امریکہ اور طالبان کی ڈیل سے قبل بین الافغان مفاہمت پر اصرار جاری رکھتا۔ اگرچہ امریکہ کا دبائو بھی تھا اور انہیں جلدی بھی تھی لیکن جینوا معاہدے کے تجربے کے تناظر میں پاکستان کو امریکہ اور طالبان کی ڈیل میں اس وقت تک تعاون نہیں کرنا چاہئے تھا جب تک کہ بین الافغان مفاہمت نہ ہوجاتی۔ تب بھی سوویت انخلا کے بعد پاکستان کے پاس واضح منصوبہ نہیں تھا اور مجاہدین باری باری پاکستان سے ناراض ہوتے گئے جبکہ اب بھی پاکستان کے پاس واضح لائحہ عمل نہیں۔ مجاہدین کی طرح طالبان پر تیزی کے ساتھ پاکستان کا اثرورسوخ کم ہورہا ہے اور یہ خطرہ محسوس کیاجارہا ہے کہ طالبان پاکستان کے دشمن نہ بن جائیں۔
چاروں فریقوں اور بالخصوص امریکہ کے مذکورہ کردار کی وجہ سے افغانستان جنگ کی آگ میں دوبارہ جھلسنے لگا ہے اور بظاہر تو سب امن امن کررہے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ دن بدن جنگ شدت اختیار کرے گی اور پاکستان کی مشکلات بھی بڑھیں گی۔ تباہی سے بچائو کی واحد صورت یہ نظر آتی ہے کہ چین، روس، ایران اور پاکستان مل کر افغان متحارب فریقوں کو مفاہمت پر آمادہ کریں ، ورنہ موجودہ تباہی، کئی گنا بڑی تباہی میں بدل سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔