بلاگ
Time 18 اگست ، 2021

فائل بند ہو گئی

11سالہ آمرانہ دورِ حکومت میں ناجانے کتنے ہائی پروفائل واقعات کی فائلیں بند کرنے والے طاقتور ترین حکمران جنرل ضیاء الحق کے فضائی حادثہ میں ہلاک ہونے والے پاکستان کی تاریخ کے شاید سب سے منفرد واقعہ کی فائل بھی بند ہو گئی ہے۔ آج تک یہی پتا نا چل سکا کہ آخری وقتوں میں جہاز پر آموں کی پیٹیاں کیوں رکھوائی گئیں کیونکہ سفر تو بہت مختصر تھا مگر اس میں ناصرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت موجود تھی بلکہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رافیل بھی سفر کر رہے تھے۔

ایک نہیں، دو نہیں بلکہ اعلیٰ سطح پر بہت سی تحقیقات ہوئیں، رپورٹس بھی تیار ہوئیں اور حکومت کو موصول بھی ہوئیں مگر ’’جائزہ‘‘ لینے کے بعد پُراسرار انداز میں بند کر دی گئیں۔ یہ وہی 11سالہ دور تھا جس میں جرنل ضیاء الحق، جنرل اختر عبدالرحمٰن اور دیگر نے امریکی امداد اور مدد سے ’’جہاد افغانستان‘‘ کا آغاز کیا۔ بعد میں اوجڑی کیمپ اور جنیوا کارڈ جیسے معاملات کی فائلیں بند کر دی گئیں اور محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کی فائل بھی بند ہو گئی۔

کئی لوگوں بشمول اعلیٰ سول اور فوجی افسروں کو شک ہے کہ جنرل ضیاء کو امریکہ اور اسرائیل نے مروایا ہے، کچھ کا خیال ہے معاملہ اندرونی تھا۔ بات جو بھی تھی اگر رپورٹ کسی عظیم ملکی مفاد میں بند کی گئی ہے تو سوالات تو جنم لیں گے کہ ایک اعلیٰ ترین فوجی افسر کے سوا سب اس جہاز میں تھے مگر وہ الگ جہاز میں گئے تھے۔ اب ہم میں سے بیشتر لوگوں کو نہیں پتا کہ اصل حقائق کیا ہیں کیونکہ یہاں فائلیں بند کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ وہ لوگ جو کل تک حکمران تھے آج ان کے اپنے صاحب زادے انصاف کی تلاش میں ہیں۔

حقائق تک رسائی اس ملک میں کبھی آسان نہیں رہی۔ کوشش کرتا ہوں کچھ کڑیاں جوڑنے کی۔ پاکستان کے سینئر ترین بیورو کریٹ روئیداد خان سے میں نے حال ہی میں اس واقعہ کی روداد جاننے کی کوشش کی جو اس وقت جنرل ضیاء کے بعد 90روز کے لئے قائم مقام صدر بننے والے غلام اسحاق کے مشیر تھے۔

اُن کے بقول ’’ایک دن صدر صاحب نے مجھے بلایا اور میرے سامنے ایک فائل رکھ دی۔ یہ بندیال کی رپورٹ آ گئی ہے، ذرا پڑھ لو۔ میں نے ایک نظر ڈالنے کے بعد فائل اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ نے پڑھ لی ہے، میں کیا کروں گا، وہ چپ رہے اور خاموشی سے اسے دراز میں رکھ دیا۔ اُس کے بعد شاید وہ رپورٹ دراز سے باہر نہیں آئی۔ عین ممکن ہے تجربہ کار روائیداد خان نے اندازہ کر لیا ہو کہ یہ بات اب آگے نہیں بڑھنی، لہٰذا دیکھنے اور پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں مگر سابق وزیر داخلہ اور اس وقت اسحاق خان کی عبوری حکومت کا حصہ رہنے والے سینئر سیاست دان چوہدری نثار علی خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہوں نے اس حوالے سے کبھی کسی حکومت بشمول عبوری حکومت کا سنجیدہ رویہ نہیں دیکھا ’’جتنا بڑا یہ واقعہ تھا، اتنی سنجیدگی کبھی نظر نہیں آئی۔ اگر یہ کور اپ نہیں تھا تو یقیناً اس سے کچھ قریب ضرور تھا‘‘۔

میں نے جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق سے رابطہ کیا اور بندیال رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو بولے ’’ہم سے یہ رپورٹ شیئر نہیں کی گئی۔ ایک یہی کیا جسٹس شفیع الرحمٰن کی سربراہی میں قائم تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کا بھی کچھ پتا نہیں البتہ ایک مرتبہ میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک بار جب وہ جہاز کا ملبہ دیکھنے گئے تو وہ ا س جگہ سے غائب تھا‘‘۔

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

اخترعبدالرحمٰن کے صاحب زادے ہمایوں اختر سے جب میں نے پوچھا تو انہوں نے بھی چوہدری نثار والی بات کی کہ کوئی حکومت تحقیق کرانے میں سنجیدہ نہیں رہی ’’کیا بدقسمتی ہے کہ اتنی طاقتور حکومت دو منٹ میں ختم کر دی گئی اور کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا‘‘ مگر خبر تو باہر آ ہی جاتی ہے، سو پاکستان ائر فورس اور امریکی ماہرین کی مشترکہ تحقیقات کی رپورٹ اب "DE CLASSIFIED"ہو گئی ہے۔ 42صفحات پر مشتمل رپورٹ پڑھنے کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ گڑبڑ غالباًکارگو کے اس حصے میں ہوئی جہاں آموں کی پیٹیاں رکھی گئی تھیں۔ بورڈ آف انکوائری اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ یہ حادثہ نہیں ایک کریمنل ایکٹ تھا اور کریمنل انکوائری کی تجویز دی جو نہیں ہوئی۔

ماضی کے اوراق پلٹ کر پڑھنے کی کوشش کی تو ISIکے سابق جنرل حمید گل سے لیا ہوا ایک انٹرویو مل گیا جو 29اگست 2009کو ایک نجی چینل سے آن ائیر ہوا جہاں انہوں نے دیگر اہم عوامل پر بات کرنے کے دوران اس واقعہ کا ذکر یوں کیا۔ ’’ISIکا تعلق صدر کی سیکورٹی سے ہوتاہے، البتہ ادارے نے صدر کو الرٹ کر دیا تھا کہ وہ اپنی سرگرمیاں محدود کر دیں وہ نشانہ بن سکتے ہیں مگر 5اگست کو اچانک انہوں نے اعلیٰ قیادت کے ساتھ بہاولپور جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب بلو بک کے حساب سے سیکورٹی کی ذمہ داری جس کی بنتی تھی اس سے پوچھنا چاہئے تھا‘‘۔ بہرحال دوسرے کسی ہائی پروفائل کی طرح یہ فائل بھی بند کر دی گئی اور اسے ایک بلائنڈ کیس بنا دیا گیا۔

یہاں اکثر فائلیں ایسے ہی بند کر دی گئیں۔ جہاز کا حادثہ ہو تو تکنیکی خرابی، ہائی پروفائل بن جائے تو غیرملکی سازش یا بیرونی ہاتھ۔ اسی طرح ایسے مقدمات کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے، بھارت کا ہاتھ کبھی افغانستان کا تو کبھی، اسرائیل اور امریکہ کا مگر ایسے میں، اپنوں کا ساتھ، تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ 

جب ایک سفیر یبورو کریٹ سے پوچھا کہ اپنوں کے ساتھ کو کیوں تلاش نہیں کیا گیا تو معنی خیز جواب دیتے ہوئے کہا ’’وہ بھی غیرملکی ساتھ ہی ہوتے ہیں جن کے مفادات یہاں کم باہر زیادہ ہوتے ہیں‘‘۔ 17اگست کے واقعات کے کئی سیکورٹی کوڈ میں تبدیلیاں آئیں مگر حکمرانوں پر حملے جاری رہے اور ایک اور وزیراعظم بےنظیر بھٹو کو ٹارگٹ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ وہ رپورٹ بھی فائل کردی۔ البتہ سیاسی نعرہ کے طور پر بہرحال مطالبہ ہوتا رہتا ہے۔

اب شاید یہ تاریخ ہی رہے اور پتا نہ چلے کہ سب سے زیادہ سیکورٹی والے حصار کے ہوتے ہوئے جہاز کے اندر کیا چیز تھی جو حادثہ کا باعث بنی کیونکہ باہر سے نا راکٹ فائر ہوا نا میزائل۔ سوالات جنم لیتے رہیں گے، چاہے اس میں شریک ملزمان سب بچ جائیں کیا ہمایوں اختر اپنی حکومت سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’فائل‘‘ کھول دیں، تینوں رپورٹ پبلک کرکے۔ ۔۔شاید نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔