بلاگ

افغانستان کے زمینی حقائق، عالمی قوتوں کے امریکا اور افغان حکمرانوں پر تحفظات

جنگ میں لاکھوں جانوں کا ضیاع اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود عالمی طاقتوں کو شکست ہوئی۔ فوٹو: فائل
جنگ میں لاکھوں جانوں کا ضیاع اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود عالمی طاقتوں کو شکست ہوئی۔ فوٹو: فائل

دنیا میں طالبان کی پیش قدمی اور افغانستان کے طول و عرض میں پہاڑوں اور غاروں سے نکل کر واپسی اتنی تیزی سے ہوئی کہ اس کی توقعات نہیں تھیں۔

گزشتہ چند سالوں سے عالمی طاقتوں امریکا اور اتحادیوں نے طالبان سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھے اور یہ عندیہ دیا جا رہا تھا کہ امریکا اور اتحادیوں کی مرحلہ وار واپسی کے بعد افغان حکومت تمام معاملات سنبھالے گی اور طالبان سے مذاکرات کے بعد ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا لیکن آخری دنوں میں دوحہ مذاکرات یقیناً کچھ ایسے فیصلے کیے گئے کہ طالبان نے اپنی پیش قدمی کو حیرت انگیزطور پر تیز کیا اور انتہائی کم مزاحمت کے ساتھ افغان صوبوں کا انتظام سنبھالتے گئے۔

اس تمام عمل میں یہ چیز بڑی واضح طور پر سامنے آئی کہ ایک طرف چین، روس، ایران اور پاکستان جیسے علاقائی ممالک نے اپنی سفارتی پیش رفت تیز کی بلکہ بظاہر بڑی حد تک افغانستان کے اندرونی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھا۔

افغان جنگ کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل
افغان جنگ کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل

دوسری طرف طالبان نے افغانستان میں تیز پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے دنیا کے طاقتور اور بااثر ممالک کو مذاکرات میں مصروف رکھ کر اپنی سفارتی کارروائی کو بھی بروقت شاید کامیاب بنا لیا۔

امریکی صدر جوبائیڈن اور دیگر عہدیداروں کے بیانات کی روشنی میں افغانستان کا گھمسان کا رن پڑنے کی توقعات اور خوفناک خانہ جنگی کے امکانات فی الحال ماند پڑ گئے۔

یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے امریکا کے فوری انخلا کے فیصلے کو جلد بازی قرار دے کر بڑی ناکامی قرار دیئے دیا گیا ہے۔ ان کی نظر میں اس جنگ میں اتنے سول و عسکری جانی نقصانات اور کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود نتائج انتہائی مایوس کن رہے ہیں اور امریکا اور افغان حکمرانوں پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔

طالبان جنگجو گاڑیوں میں گشت کرتے ہوئے۔ فوٹو: فائل
طالبان جنگجو گاڑیوں میں گشت کرتے ہوئے۔ فوٹو: فائل

اپنی اس تحریر میں تاریخ کے ان لمحات کو لکھتے ہوئے یہ سوچ حاوی ہے کہ یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ پس منظر میں رہنے والے معاملات جب منظر عام پر آئیں تو وہ شاید دنیا کے لیے زیادہ حیران کن ہوں۔

یہاں یہ حقیقت تو عیاں ہے کہ 40 سے زائد طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک سے پنجہ آزمائی میں افغان قوم نے ایسا کیا سیکھا کہ عالمی طاقتوں کی سیاسی سفارتی اور عسکری حکمت عملی مسلسل 20 سال جاری رہ کر اربوں ڈالر اور لاکھوں جانیں ضائع کرنے کے بعد بھی کامیاب نہ ہو سکی۔

دوسری طرف 40 سال پہاڑوں غاروں اور جنگلوں میں رہنے والے جنگجوؤں نے اپنے ملک سے قبضہ ختم کروانے میں کامیابی حاصل کی اور اپنی فوجی، سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کو اس طرح ظاہر کیا کہ اس کو سمجھنے کے لیے دنیا کے تحقیق دانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔

افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی ناکامی پر ان تمام ترقی یافتہ ممالک کے دفاعی، سیاسی، سماجی، معاشی سفارتی تحقیقی ماہرین کی اس رپورٹ کا انتظار رہے گا کہ طالبان سے طویل جنگ میں وہ کیا محرکات تھے کہ جدید تہذیب یافتہ اور مضبوط عسکری قوتیں اپنی مکمل اور بری طرح ناکامی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ اگر وہ رپورٹس کبھی منظر عام پر آسکیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔