13 ستمبر ، 2021
صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی سیف سٹی پراجیکٹ سے محروم ہے جبکہ پولیس کی نفری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
کراچی میں کیمروں کی ضرورت سب سے پہلے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے بعد محسوس کی گئی۔
ڈینیئل کو پی آئی ڈی سی سگنل سے اغوا کر کے گلشن معمار کے کمپاؤنڈ میں قتل کیا گیا مگر تفتیش کاروں کو یہ بات اُس وقت پتا چلی جب اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
حکام کے مطابق سب سے پہلے کیمرے ڈی ایچ اے اتھارٹی نے لگائے پھر شہری حکومت نے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے نام سےکیمروں پر مشتمل سسٹم بنایا۔
تیسری دفعہ یہ کام سندھ حکومت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کیا مگر یہ تمام سیٹ اپ شہر میں سکیورٹی اور نگرانی کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہے۔ حکام بتاتےہیں کہ ان تمام کیمروں میں ٹیکنیکل سہولیات، تعداد اورکوالٹی سمیت کوئی بھی چیز ایسی نہ تھی جو کیسز حل کرنے میں معاون ثابت ہوسکے۔
عالمی سطح پر اسمارٹ پولیسنگ اور سیف سٹی پراجیکٹ کی بدولت حل کیے گئے مثالی کیسز کا جائزہ پیش کریں تو لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل سامنے کی مثال ہے۔ یہ کیس حل کرنے کیلئے کئی لاکھ فون کالز کا جائزہ لینے کے علاوہ شہر میں نصب کیمروں سے حاصل کردہ کئی ماہ کی فوٹیجز کو باریک بینی سے جانچا گیا۔
پھر ایک عینی شاہد کی نشاندہی پر ملزمان کا سراغ لگایا گیا پھر قتل میں استعمال کی گئی چھری اور اینٹ برآمد کی گئی، اس کے بعد اینٹ پر گرنے والے ملزمان کے پسینے کا ڈی این اے حاصل کیا گیا اور پھر خاکہ تیار کرکے فرار ملزمان کی نہ صرف نشاندہی کی گئی بلکہ انہیں پاکستان میں گرفتار بھی کروایاگیا۔
بڑے شہروں کی سکیورٹی سے متعلق اقوام متحدہ نے جو معیار سیٹ کیا اُس کے مطابق 450 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار لازمی ہے، اگر کراچی کی متنازع مردم شماری کو درست مانیں تو اس کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے جبکہ شہر بھر میں25 ہزار اہلکار ہیں جن میں اگر آپریشن کو الگ کردیا جائے تو یہ تعداد 15 سے 18ہزار رہ جاتی ہے۔
یوں کراچی میں یہ شرح تقریباً 900 شہریوں کیلئے ایک پولیس اہلکار بنتی ہے یعنی ایک طرف پولیس کی نفری نہ ہونے کے برابر ہے تو دوسری طرف شہر سیف سٹی پروجیکٹ سےبھی محروم ہے۔