20 ستمبر ، 2021
پاکستان کے مشرق میں بسنے والی دلی اور مغرب میں بسنے والے کابل میں پڑوسی ہونے کے علاوہ یہ بات بھی مشترک ہے کہ یہ کئی بار اُجڑے لیکن پھر بسالیے گئے۔
ہر بار ان کے جلنے کی خونی داستان ایک نئے انسانی سانحے کو جنم دیتی رہی ہے۔ مصروف ترین پاک افغان سرحد “طورخم” عبور کرتے وقت ذہن پر کابل چھایا ہوا تھا لیکن اس دوران جو کچھ ہوا اس نے کابلی پلاؤ کی مہک اور خیالی پلاؤ دونوں کو جھٹک دیا۔
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور افغانستان کے صوبے ننگرہار کو ملانے والی سرحد گزشتہ 4 ماہ سے پیدل مسافروں کے لیے بند ہے، صحافیوں کے لیے ویزے کے علاوہ جب تک کابل سے ذبیح اللہ مجاہد کا دستخط شدہ اجازت نامہ نہ چل پڑے، ایک قدم اٹھانا بھی مشکل ہے لیکن یہ دونوں چیزیں ہونے کے باوجود بھی یہ سفر اتنا ہموار نہیں۔
سرحد پار پاکستانی صحافی پھر جاسکتا ہے لیکن پاکستانی کرنسی نہیں، دوران چیکنگ روپیہ دیکھ کر پاکستانی امیگریشن حکام نے اسے فی الفور افغانی (افغان کرنسی) میں تبدیل کرانے کا حکم دیا۔
سرحد پر بیٹھے “منی چینجر” کے لیے ان دنوں یہ “ گیم چینجر” ہے ،کرنسی کی اس ادلا بدلی کے یہ من مانے پیسے وصول کرتے ہیں، رقم ہاتھ میں دیکھتے ہی ہر وہیل چیئر نما مال بردار ٹرالی لیے پورٹرز سامان اٹھانے کی ضد کرنے لگتے ہیں۔
انہیں پیسے بھی کمانے ہیں لیکن ان کے پاس وقت بھی نہیں اس لیے مسافر فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرسکتے ،یہ سامان لاد کر آہنی جالیوں والی راہ داری کی طرف چل پڑتے ہیں اور مسافر ان کے پیچھے پیچھے۔
پاکستانی امیگریشن سے پاسپورٹ پر “ایگزِٹ” کا ٹھپہ لگنے کے بعد آخری مرحلے پاک فوج کے جوانوں کو تفصیلات بتانے کا ہوتا ہے جو دھکم پیل میں عبور ہوگیا ، اسی دوران پاکستانی پورٹر نے ہمارا سامان افغانی پورٹر کی ٹرالی میں لڑکایا اور ہم سے زبردستی 500 “افغانی” (افغان کرنسی) اینٹھ گیا۔
جالیوں کے اندر سے جھانکا تو پہلا سفید پرچم دکھائی دیا جس پر کلمہ طیبہ درج تھا ، یہ طالبان کا پرچم ہے ، پرچم سے نظر ہٹائی تو سامنے ایک طویل القامت طالب کو طالبِ توجہ پایا۔
ویزہ اور اماراتی خط دونوں دیکھنے کے بعد اس نے گزر جانے کا اشارہ کیا افغان سرزمین پر پہلا قدم رکھا تو بین الاقوامی تعلقات کے سارے لیکچر “فلیش بیک” ہونے لگے، سوچا سرحد پار کرنا تو بہت آسان مرحلہ نکلا لیکن یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکی۔
آہنی باڑ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور ٹیکسی اسٹینڈ تک پہنچنے سے پہلے کم از کم5 جگہ طالبانوں کی “پکِٹ” نے ہمیں روکا، اُن کی مرضی ہوتی تو بٹھا دیتے، کھڑا رکھتے کبھی صحافت کے ثبوت ٹی وی کلپس کی صورت میں طلب کرتے تو کبھی افغان وزارت اطلاعات میں کال کرنے کا مشورہ دیتے، میں اور میرے کیمرامین فضل حسین کے پاس انہیں مطمئن کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔
فضل حسین کبھی پشتو میں بات کرکے تو کبھی تھوڑیوں میں ہاتھ ڈال کر راہداری عبور کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے، تقریباً 2گھنٹے کی دقّت کے بعد یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا۔
لیف ہینڈ ڈرائیو کرولا جی ایل آئی جلال آباد کی مرکزی شاہراہوں پر فراٹے بھر رہی ہے۔ پشتون ڈرائیو ر نے جھجھکتے ہوئے گانے چلانے کا پوچھا اور ٹیپ آن کردیا ہے راستے میں جابجا خالی چوکیاں اور چیک پوسٹ ہیں، جن پر کبھی افغان فورسز تعینات ہوتی تھیں وہی 3 لاکھ افغان فورسز جن پر امریکی حکومت نے 6 ماہ مزاحمت کے اندازے قائم کر رکھے تھے۔
اب ان قلعہ نما چوکیوں اور خالی ہیلی پیڈز کا کنٹرول کسی کے پاس نہیں، ان کے درودیوار مشین گن کی گولیوں سے چھلنی ہیں اور بچی کچی لوہے کی چیزیں ہیرونچی چُرارہے ہیں، ساتھ ہی سڑک پر طالبان ٹولیوں میں گشت کررہے ہیں ،کچھ با وردی ہیں اور کچھ ڈھیلے ڈھالے شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے۔
ان کی عمریں23 سال سے 40 سال کے درمیان ہیں، یہ پاسپورٹ سے زیادہ ذبیح اللہ مجاہد کے دستخط شدہ لیٹر کو ٹٹولتے ہیں اور چہروں کو غور سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
طورخم سے کابل کا راستہ تقریباً 5 گھنٹے کی مسافت کا ہے، دریائے کابل بھی ساتھ ساتھ بہتا ہے، جو کہیں پتھروں سے سر ٹکراتا ہے تو کہیں پیاسے ہونٹ پر جمی پپڑیوں کی طرح خشک ہے، میں نے کوشش کی کہ گاڑی کی پچھلی نشست پر کسی طرح پیر سمیٹ کر تھوڑی نیند لے لی جائے ۔
کچھ دیر میں کچی نیند ٹوٹی تو گاڑی ایک طالبان کے ناکے پر رُکی ہوئی تھی، مسلح طالب نے میری طرف نگاہ ڈال کر ڈرائیور سے پشتو میں کہا “دا پنج شرے خو نہ دی؟” (یہ پنج شیری تو نہیں ہے؟) پھر ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا، “زئی زئی” (جاؤ جاؤ)۔
ونڈو گلاس سے باہر جھانکا تو پہاڑوں سے دھوپ کی چادر سرک رہی تھی، سورج غروب ہورہا تھا ، دور کابل کی روشنیاں جھلملا کر اشارہ دے رہی تھیں، “کابل نزدیک است”۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔