شکریہ نواز شریف!

لندن میں مقیم میاں صاحب کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ مردہ ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ بڑے میاں صاحب ایک بار پھر حکومت پر بھاری پتھر بن کر گرے ہیں۔ فنکار لوگوں نے کیا خوب ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے کہ ایک بٹن دبانے سے بڑے میاں صاحب کو لندن میں بیٹھے بٹھائے سائنو ویک کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز لگا دی اور پیغام دیا کہ دوسری ڈوز لگوانے کے لئے تاریخ کا انتظار فرمائیے اورمقررہ تاریخ پر کوٹ خواجہ سعید اسپتال لاہور تشریف لائیں۔

اس مستند جعل سازی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا گیا اور حکومت پاکستان کی مہر بھی ثبت ہوگئی۔اسپتال کے تین ملازمین کو مقدمات درج کرکے دھر لیا گیا۔ ایم ایس، سینئر میڈیکل آفیسر معطل کر دیئے گئے۔ انکوائری شروع ہوگئی۔ ﷲ ﷲ خیر صلا۔ فنکار لوگوں کے کمالات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ باتیں نہیں کرتے جس کام کی ٹھان لیں، کرکے دکھاتے ہیں۔ اب عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کے حامی یارانِ خان اعظم سے کوئی پوچھے کہ جناب اس جعل سازی پر بھی کوئی تبصرہ فرمائیے کہ بڑے میاں صاحب تو لندن میں بیٹھے حکومت اور اداروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

دھواں دار تقاریرمیں سچے جھوٹے انکشافات پر انکشافات کئے جارہے ہیں اور نظام حکومت خانِ اعظم چلا رہے ہیں اور تمام حکومتی مشینری کا ریموٹ کنٹرول انہی کے پاس ہے۔ نادرا حکومت کے ماتحت کا م کررہا ہے تو پھر یہ جعلی انٹری کیوں اور کس طرح ہوگئی؟ کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں مریخ سے آئیں گی جو یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل انہی سے نکلے گا۔ حضور والا اعتراض ووٹنگ مشینوں پر نہیں، آپ کے طرزِ عمل پر ہے کہ جس ملک میں کورونا ویکسی نیشن سنٹر کا ڈیٹا ہی محفوظ نہیں جہاں ایک معمولی چوکیدار جعلی انٹریاں کرنے کا اختیار رکھتا ہو وہاں میرا اور آپ کا ووٹ ان مشینوں میں کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ شکریہ! نواز شریف۔

آپ نے لندن میں بیٹھ کر بھی اپنا ”کرشمہ“ دکھا دیا اور ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ستر سال کی یہی رام کہانی ہے۔ کرنا کرانا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ گڈ گورننس بائے بائے، بیڈ گورننس ہائے ہائے کرتے ہم یہاں تک پہنچ چکے ہیں ۔ خان اعظم کو اس وقت کوئی مشورہ دینا عبث ہے کہ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے اور عوام کا اس نظام سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے ۔ ایسے حالات میں جبکہ ہر طرف ہا ہا کار مچی ہو،ای وی ایم کے ذریعے عام انتخابات پر زور زبردستی کرنا حکومت کی ”نیک نیتی“ پر شک ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں ایسے اعلیٰ دماغوں کی کوئی کمی نہیں جو گھر بیٹھے ایک بٹن دبانے سے پورے سسٹم کا بھٹہ گول کرسکتے ہیں۔

ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں بینکوں میں پڑی عام لوگوں کی جائز کمائی تک سکیورٹی کوڈ چوری کرکے لوٹ لی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدواروں کی یکے بعد دیگرے شکست کے بعد ای وی ایم کا خیال کیوں آیا؟ یہی سوال سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے بارے بھی کیا جارہا ہے۔ جن ممالک میں ای وی ایم کے کامیاب تجربے کی مثالیں دی جارہی ہیں پہلے ان کی معاشرتی، اخلاقی، جمہوری روایات کا مطالعہ بھی کرلیں اور ان کا معیار تعلیم بھی دیکھ لیں۔

دور کیوں جائیں یہ تجربہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ناکام ہو چکا ہے۔ آج ان کی ووٹنگ مشینیں کباڑ خانے سے بھی کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔ امریکہ جیسی سُپر پاورکے صدارتی انتخابات تو آپ سب کو یاد ہوں گے۔ روس پر اب تک ان انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ پھر پاکستان جیسے کمزور معاشرے میں یہ تجربہ کیسے کامیاب ہوسکتا ہے جہاں لوڈشیڈنگ کا عذاب ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایسے سسٹم میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیا خاک کام کرے گی؟ کسی زور آور نے اگرایک پولنگ بوتھ میں مشین کے ساتھ کوئی پنگا لے لیا یا چپ ہی غائب کردی تو اس کے نتائج کس کے سر ہوں گے؟

ایسے بے شمار خدشات ہیں جو پورے نظام کو انتشار کا شکار کرسکتے ہیں اگر حکمران ایسا کوئی تجربہ کرنا بھی چاہتے ہیں تو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں کرلیتے، چیف الیکشن کمشنر پر چڑھائی سے بہتر ہے کہ ابتدائی طور پر ای وی ایم کوپبلک میں عملی مظاہرے کے لئے لائیں۔

 اس کے کارآمد ہونے، اخراجات اور نقائص کا جائزہ لیں ایسا نہ ہو کہ اس نظام پر زور زبردستی عمل کرنے سے لینے کے دینے پڑ جائیں اور مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر قوم کی ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد کی رقم برباد کرکے رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو اور یہ ووٹنگ مشینیں بلال گنج کے کسی کباڑ خانے میں پڑی ملیں یا بچوںکے کھلونوں کے طور پر استعمال ہونے لگیں اور ہم سب یہ کہیں نوازشریف تیرا شکریہ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔