20 اکتوبر ، 2012
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…برطانوی جریدہ’اکنامسٹ‘ لکھتا ہے کہ ملالہ حملے پر ملک بھر میں غم و غصے کے باوجود غیر ریاستی طاقتیں دوبارہ اکھٹی ہو رہی ہیں۔آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں عام انتخابات متوقع ہیں اس لئے تمام سیاسی جماعتیں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی کھل کر حمایت سے گریزاں ہیں، کیونکہ اس کے پر تشدد نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ فوج کے پاس بھی شمالی وزیرستان میں جانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی اور نہ وہ عقلی طور پر اس کے لئے تیار ہے۔ پاکستانی صحافی بھی سنگین خطرے میں ہیں۔عالمی میڈیا تنظیموں نے اس خطرے کے پیش نظر اسلام آباد میں اپنے آپریشن کم یا ختم کردیے ہیں۔قدامت پسند وں کے طرف سے ملالہ کو امریکی ایجنٹ ثابت کرنے کی مہم بھی جا ری ہے۔جریدہ لکھتا ہے کہ احساس کیا جا رہاہے کہ ایک14سالہ لڑکی نے پاکستان کو جرات کا مفہوم سکھا دیا۔ 2009میں جب وادی سوات طالبان کی گرفت میں چلی گئی تو اس وقت بھی ملالہ کی آنکھوں میں واضح تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم کا حق حاصل ہے۔آج برطانیہ کے اسپتال میں وہ زیر علاج ہے اور ڈاکٹر اس کی بہادری کے معترف ہو چکے۔ پاکستان کی عوام نے ملالہ پر حملے کے خلاف غصے کا اظہار کیا ہے۔ جریدہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا سیاسی، فوجی اور مذہبی رہنماوٴں میں ملالہ جتنی جرات اور ہمت ہے۔ اکثریت نے پاکستانی طالبان کی مذمت کیے بغیر ملالہ حملے کی مذمت کی ہے۔ کچھ تو مذمت میں اس سے آگے بڑھ گئے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی حالیہ مہینوں میں انتہا پسندوں کے خلاف پہلے سے زیادہ جارحانہ موقف اختیار کرچکے ہیں۔انہوں نے کارروائی کے لئے تیاری کی آہٹ سنادی،انہوں نے کہاکہ وہ دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔واضح طور فوجی ردعمل شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کی طرف ہوگا۔امریکا طویل عرصے سے وہاں فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتا آرہا ہے۔حکومتی اتحاد نے ملالہ واقعے کے بعد"عملی اقدامات" کے لئے قرارداد کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن ان سب اقدامات کے لئے انتہائی جرات کی ضرورت ہے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی قومی اتفاق رائے نہیں اور کچھ وضاحت کیے بغیر ان سے امن معاہدہ چاہتے ہیں۔پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ن لیگ نے حکومتی قرارداد کی مخالفت کردی ان کاکہنا تھا کہ پہلے فوجی آپریشنوں نے ملک مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا۔ جس پر پیپلز پارٹی نے قرارد اد پیش نہیں کی۔