23 اکتوبر ، 2021
افغان صوبے قندوز سے بدخشاں جاتے ہوئے تخار صوبے میں پہاڑوں کے درمیان ایک بہت تنگ درے سے گزریں تو ایک جگہ آتی ہے جسے تنگی فُرقار کہا جاتا ہے۔
دفاعی لحاظ سے یہ بہت اہم مقام ہے، طالبان اپنے پہلے دور حکومت میں اس مقام سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے، شمالی اتحاد کی فوجوں نے انُہیں روک دیا تھا اور بدخشاں صوبے پر اپنا قبضہ بر قرار رکھا تھا۔
اس راستے پر ٹینک کا ایک ڈھانچہ نظر آتا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ روسی فوج کا ٹینک ہے۔
اس ٹینک پر فارسی میں ایک بہت دلچسپ تحریر نظر آتی ہے کہ یہ ٹینک مجاہدین نے روس کو شکست دے کر حاصل کیا تھا اور پھر مجاہدین کو طالبان نے شکست دے کر اس ٹینک پر قبضہ کر لیا۔
صوبہ بدخشاں کے نواحی علاقوں کا کنٹرول بہت پہلے سے طالبان کی پاس تھا لیکن دارالحکومت فیض آباد پر مختصر مگر خونریز جنگ کے بعد طالبان نے 11 اگست 2021 کو اس شہر پر قبضہ کیا۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد دیگر صوبوں کی طرح بدخشاں میں بھی معاشی حالات بہت خراب ہیں، اسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں، تنخواہوں کا مسئلہ ہے اور تعلیمی اخراجات بھی بوجھ بن رہے ہیں۔
صوبہ بدخشاں کو بجلی ترکی کی مدد سے تعمیر شورابک ڈیم سے آتی ہے۔ جیو نیوز کی ٹیم گورنر ہاؤس پہنچی تو پتا چلا کہ بجلی نہیں ہے اس لیے لان میں بٹھایا گیا اور بتایا گیا کہ غیر ملکی ماہرین کے ملک سے چلے جانے کی وجہ سے بجلی کے نظام میں ہوئی خرابی ٹھیک نہیں ہو سکی۔
معدنیات کی دولت سے مالا مال لیکن بدحال صوبہ بدخشاں کے گورنر مولوی نثار احمد کا کہنا ہے کہ ہمیں سکیورٹی اور داعش کا تو کوئی خطرہ نہیں لیکن اقتصادی حالات ہمارے لیے بہت مشکل ہیں۔
مولوی نثار احمد کا کہنا ہے کہ یہی مشکلات حل کرنے کے لیے امارت اسلامی دن رات محنت کر رہی ہے جیسے امن و امان کے معاملات ہم نے دلیری سے حل کئے ہیں اسی طرح اللہ تعالی کی مدد سے ہم بین الاقوامی رابطوں کے ذریعے اقتصادی معاملات اور روزگار کے مواقعوں کیلئے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔
افغان عوام یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان کی آمد کے بعد سے امن و امان بہتر اور شاہراہیں محفوظ ہو گیں ہیں لیکن کیا طالبان معاشی حالات جلد بہتر بنا سکیں گے، اس سوال پر وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔