26 اکتوبر ، 2021
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کوئی عدالت یا جرگہ شرعی وراثتی جائیداد کی تقسیم کے قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
سوات میں جائیداد تقسیم کے کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے کہا کہ عدالت علاقائی زمینی حقائق کو بھی سامنے رکھے جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جس علاقے کی زمینی حقیقت کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، زمینی حقائق دیکھتے دیکھتے فوجی آمروں نے ملک میں مارشل لاء لگائے اور ججز سے جبری دستخط کرالیے، پھر ہمیں کہا جاتا ہے ہم زمینی حقائق دیکھیں۔
سپریم کورٹ میں سوات میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جرگے کا فیصلہ دینِ الٰہی سے بڑا ہوسکتا ہے نہ ہی دینِ الہٰی کوتبدیل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جائیداد کی تقسیم سے متعلق دستاویزات پر 7 سالہ بچے کے انگوٹھے کا نشان لگایا گیا، سات سالہ بچے کو تو قتل کیس میں بھی پھانسی نہیں ہوسکتی، ایسی دستاویزات کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑادی گئیں، پاکستان میں سچ بولنے کے کیا حالات ہیں سب جانتےہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ایک دن میں ہوتا ہے، پاکستان میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ہوتے 40 سال لگ جاتے ہیں، جائیداد کی تقسیم کا شرعی اصول ساڑھے 1400 سال پہلے طے ہو چکا۔
عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے سوات کے حبیب اللہ مرحوم کی جائیداد کو تمام قانونی ورثاء کے مابین شرعی اصول کے تحت تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔