بلاگ
Time 27 اکتوبر ، 2021

ابہام سے بحران تک

جس ملک میں وزیراعظم، بہ وقتِ ضرورت ’امپورٹ‘ کئے جاتے ہوں جہاں آئین پاکستان کی حیثیت ’کاغذ کے ایک ٹکڑے‘ سے زیادہ نہ ہو جہاں دستور بنانے والا پھانسی اور توڑنے والا پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جاتا ہو وہاں کیسا اختیار اور کس کا اختیار والی بحث ہر چند سال بعد کیوں شروع ہو جاتی ہے۔

سارا مسئلہ ایک صفحہ پر ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بلکہ ایک ’سوچ‘ کا ہے ورنہ تو ’فنی خرابی‘ گھنٹوں میں دور ہو جاتی؟ تین ہفتے بعد بھی اگردور نہیں ہوتی تو کچھ تو تبدیل کرنا پڑے گا چاہے ’ابہام‘ بحران کی شکل اختیار کرلے۔

آئین پاکستان کے تحت ہر ادارے کو ایک منتخب حکومت کے ماتحت ہونا چاہئے مگر زمینی حقائق اور سوچ اس سے مختلف ہے۔ وزیراعظم آئینی طور پر مضبوط ہوتے ہوئے بھی کمزور نظر آتا ہے۔

تین ہفتے گزرنے کے بعد بھی اہم ترین عہدے پر تقرری نہیں ہو پارہی کیونکہ بدقسمتی سے ہم نے اس قومی سلامتی کے ادارے کو بھی سیاست زدہ کر دیا ہے کہ اس ایک فیصلے کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ اس ایک فیصلے کے نہ ہونے سے ملک میں ایک غیر یقینی صورتحال جنم لے رہی ہے۔ خندق تو جنگ کے ماحول میں کھودی جاتی ہے نہ کہ ایک تنظیم کے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے۔ ایک بار پھر لاہور سے اسلام آباد تک ریاست یرغمال نظر آئی ۔

دوسری طرف اپوزیشن کی جماعتوں نے ملک میں ’مہنگائی کے سونامی‘ کے خلاف مظاہروں اور لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ اب مجھے یہ تو پتا نہیں کہ ان دو معاملات کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں مگر ہماری تاریخ کچھ ایسی ہی رہی ہے کہ ہم ’اشاروں کی زبان‘ بہتر سمجھتے ہیں۔اب وزیراعظم عمران خان کے اندر فیصلہ سازی کا فقدان نظر آتا ہے یا بات ’ایک صفحہ‘ سے دو مختلف صفحوں تک پہنچ گئی ہے؟

اختیار تو سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف لگا دیں مگر اس وقت بھی مسئلہ ’طریقہ کار‘ پر بنا۔

اس وقت ان کی سری لنکا سے واپسی کا انتظار کرلیا جاتا حالانکہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا بس فرق یہ تھا کہ ایک کے جہاز کو لینڈ نہیں کرنے دیا جا رہا تھا تو دوسرے کو لینڈ کرتے ہی فارغ کر دیا گیا۔

اب آجاتے ہیں اصل مسئلے کی طرف کہ آخر پاکستان کی اہم ترین ایجنسی ISI کے سربراہ کا تقرر کیوں ہمیشہ یا زیاہ تر وجہ ’تنازع‘ بنتا ہے؟ اس کا ایک سیاسی پس منظر ہے اور اگر یہ ابہام ہمیشہ کے لئے دور کر دیا جائے تو شاید یہ ایک معمول کی تقرری ہو جائے۔

اس کو ہماری اجتماعی بدقسمتی کہیں کہ پاکستان میں کئی الیکشن متنازع رہے کیونکہ کہیں نہ کہیں ادارے پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کیلئے 1974 میں اس ادارے کا جو ’سیاسی سیل‘ بنوایا جس کا بعد میں خود بھی شکار ہوئے، آنے والے فوجی اور سویلین حکمرانی کے دور میں اسے ختم کرنے کے بجائے مضبوط کیا گیا اور اس کا بے دریغ استعمال ہوا۔

اب چاہے وہ اسلامی جمہوری اتحاد کا بنایا جانا ہو یا مشہور زمانہ اصغر خان کیس ہو۔ اگر اس ادارے کا کوئی سربراہ جنرل حمید گل مرحوم کی طرح برملا اعتراف کرے کہ ’’ہاں IJI میں نے بنائی تھی‘‘ اور دوسرا سربراہ جنرل اسد درانی سپریم کورٹ میں حلفیہ یہ کہیں کہ 1990 کے الیکشن میں پیسے اس وقت کے آرمی چیف کے کہنے پر اپوزیشن جماعتوں میں تقسیم کئے گئے تھے‘ تو فیصلہ کرلیں کہ اصل ’فنی خرابی‘ کیا ہے اور کہاں ہے۔

اصل مسئلہ جنرل فیض حمید کی تقرری نہیں ادارے کی ساکھ کا ہے کیونکہ پوری دنیا میں ISI کو بین الاقوامی سطح کی چند بہترین انٹلیجنس ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے اختیارات کے ’ابہام‘ کو دور کیا جائے۔

بظاہر لگتا ہے کہ پچھلے چند برس میں ایک نئی ’ٹرائیکا‘ جس میں اب صدر پاکستان کے بجائے وزیراعظم اور آرمی چیف کے علاوہ ڈی جی ISI شامل ہیں۔ ایک مسئلہ کو حل نہیں کرپا رہے۔ بات محض سمری یا نوٹیفکیشن کہاں سے جاری ہونے سے زیادہ ’نام‘ پر ہے۔

اس سارے معاملے کی طوالت نے بڑے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ کون جاتا ہے اور کون ٹھہرتا ہے اس کا تو پتا نہیں مگر سب سے زیادہ مشکل میں تو وہ ’سیاسی پرندے‘ ہیں جو اشارہ ملنے پر کبھی ایک شاخ پر تو کبھی دوسری پر نظر آتے ہیں۔

اس سارے مسئلے کا حل یا تو قانون سازی کے ذریعے نکالنا ہوگا چاہے آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ ہو یا ڈی جی ISI کی تقرری کا۔ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی تقرری کے معاملے کو جس احسن طریقے سے حل کیا اس سے کم از کم یہ ابہام ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا کہ چیف جسٹس کون ہوگا اور میعاد میں توسیع نہیں ہوسکتی۔

آج آپ باآسانی بتا سکتے ہیں کہ آج سے دس سال بعد چیف جسٹس کون ہوگا؟ رہ گئی بات عدلیہ کی آزادی کی تو شاید وقت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے بدقسمتی سے ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ جس ملک میں چیف جسٹس نظربند رہے ہوں وہاں عدلیہ کیسے آزاد ہو سکتی ہے؟

ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنے گھر سے عدالت جانے کے لئے نکلے تو گیٹ پر کھڑے ایک جونیئر افسر نے سیلوٹ مارتے ہوئے کہا ’’سر آپ باہر نہیں جا سکتے‘‘ ایسا ہی کچھ افتخار چوہدری صاحب اور اس زمانے کے کچھ دوسرے ججوں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔

موجودہ بحران کسی کے فائدے میں نہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں بار بار بڑی غلطی کرتی ہیں وہ بھی پرانی، نئی نہیں۔ آخر ہم کب سمجھیں گے کہ ’اشاروں کی زبان‘ اسپیشل لوگوں کے لئے ہوتی ہے اس سے نہ حکومتیں مضبوط ہوتی ہیں نہ اپوزیشن کی تحریکیں چلا کرتی ہیں۔

ایک وقت تھا جب بڑے پیر پگارا مرحوم فخریہ انداز میں کہتے تھے ’’ہاں بھائی میں تو GHQ کا آدمی ہوں‘‘۔ اب زمانہ راولپنڈی والے شیخ رشید صاحب کا ہے جو روز گیٹ نمبر4 کا ذکر کرتے تھکتے نہیں۔ اب یہ گیٹ ’غیرمتعلقہ‘ لوگوں کے لئے بند ہو جانا چاہئے۔

وقت وقت کی بات ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب فیض احمد فیض جیسے لوگ سیاست میں تھے اب تو لوگ سیاست سے صرف ’فیض یاب‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اسی لئے سیاسی جماعتوں میں بھی انہی افراد کی اہمیت ہے جنکے تعلقات ’اسٹیبلشمنٹ‘ سے بہتر ہوتے ہیں۔ سارا مسئلہ اسی ’سوچ‘ کا ہے کسی ایک صفحہ کا نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔