Time 08 نومبر ، 2021
کاروبار

سندھ میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا راج، محکمہ سپلائی پرائسز غیر فعال

سندھ میں مہنگائی پر کنٹرول کیسے ہو؟ حکومت سندھ کا بے جا منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور قیمتیں کنٹرول کرنے والا اہم ادارہ بیور وآف سپلائی اینڈ پرائسز  مکمل طور پر فعال ہی نہیں ہے۔

مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، سندھ میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزوں نے بھی عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اشیائے خورونوش کو من مانی قیمتوں پراور ناپ تول میں کمی کی شکایات بھی عام ہیں جبکہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام ایک بڑا غیر قانونی دھندہ بن گیا ہے۔

دکانوں، بیکریوں، ٹھیلوں، سپر اسٹورز میں عام اور الیکٹرانک ترازو کی جانچ پڑتال کا میکنزم انتہائی کمزور ہے۔ پٹرول پمپس، سودا سلف، گوشت اور دودھ سمیت دیگر دکانوں پر ناپ تول چیک کرنے کا میکنزم برائے نام رہ گیاہے۔ ناجائز منافع خوری، ناپ تول کا معیار برقرار رکھنا اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کاروائی کا اختیار محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کو ہے۔

گزشتہ 40 سال سے ادارے کا پورا مکینزم صوبے میں قائم ہے، اس ادارے کو بنیادی اشیائے ضروریہ کے نرخ کنٹرول، انسداد ذخیرہ اندوزی و بے جا منافع خوری ایکٹ 2005، سندھ گودام رجسٹریشن ایکٹ 1995 اور سندھ ویٹ اینڈ میژرز نفاذ ایکٹ 1975 کے تحت کاروائی کا اختیار ہے۔

ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرولر سے لے کر انسپکٹرز کی سطح کے افسر ہر ضلعے میں تعینات ہیں، اس ادارے کا بجٹ65کروڑ روپے جبکہ ملازمین کی تعداد 1100 سے زائد ہے۔

حکومت سندھ نے سال 1979 میں بیورو آف سپلائی کو ایک خودمختار ادارےکے طور پر قائم کیا، ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ بنایا گیا، 2002 میں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کے آرڈیننس کے تحت اس ادارے کو محکمہ زراعت میں ضم کر دیا گیا اور پھر 2008 میں ترمیم کرکے دوبارہ بحال کیا گیا۔

سال 2011 میں ایک سرکولر جاری کر دیا گیا کہ حکومت سندھ نے ضلعی پرائس کنٹرولر کے اختیارات کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز  اور مختیار کار کو تفویض کر دیے اور 2014 میں انہیں مجسٹریٹس کے اختیارات بھی دے دیے گئے۔ سندھ ہائی کورٹ میں اس معاملے پر کئی درخواستیں زیرسماعت ہیں۔

ایڈوکیٹ طارق منصور کہتے ہیں کہ محکمہ بیورو آف سپلائی کے افسران کے اختیارات ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز  اور مختیارکاروں کو دینا آئین کے خلاف ہے، ضلعی انتظامیہ کے حکام زیادہ سے زیادہ تین سے چار اشیاءکے نرخ پر ہی توجہ دے پاتے ہیں جس میں آٹا، دودھ گوشت اور انڈے شامل ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اس کی ایک وجہ ان کے پاس اشیاء کے نرخ کنٹرول کرنے سے متعلق آگہی اور مکینزم نہ ہونا ہے۔ قانون کے مطابق یہ تمام اختیارات بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کے کنٹرولرز، ڈپٹی کنٹرولرز، اسسٹنٹ کنٹرولرز اور انسپکٹرز کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادارے کو 24 ضروری اشیاء کے نرخ مقرر کرکے اس پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔

اشیاء کے معقول نرخ مقرر کرنے، معیاری ناپ تول اورگراں فروشی و ذخیرہ اندوزی سے بچانے کے لیے محکمہ بیورو آف سپلائی پرائسز کا فعال ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ 24 ضروری اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے عام آدمی کو براہ راست ریلیف دیا جا سکے۔ اس معاملے میں حکومت سندھ کی سنجیدگی انتہائی ضروری ہے۔

مزید خبریں :